بھینس کی قربانی
مسئلہ(۱۱۳): بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ بھینس کی قربانی درست نہیں ہے، ان کا یہ خیال غلط ہے، کیوں کہ شریعتِ مقدسہ میں تین قسم کے جانوروں کی قربانی کرنا جائز ہے، اور فقہاء کرام نے ان تین قسموں میں گائے کے ساتھ بھینس کو بھی شمار کیا ہے۔(۱)
------------------------------
=(۶/۲۹۸، کتاب التضحیۃ ، فصل في محل إقامۃ الواجب)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : والمتولد بین الأہل والوحشي یتبع الأم ۔ الدر المختار۔ وفي الشامیۃ : قال في البدائع : فلو نزا ثور وحشي علی بقرۃ أہلیۃ فولدت ولداً یضحي بہ دون العکس ، لأنہ ینفصل عن الأم وہو حیوان متقوم تتعلق بہ الأحکام ومن الأب ماء مہین ، ولذا یتبع الأم في الرق والحریۃ ۔ (۹/۴۶۶ ، کتاب الأضحیۃ ، البحر الرائق : ۸/۳۲۴)
(فتاوی رحیمیہ :۱۰/۵۵،المسائل المہمۃ:۵/۱۲۹)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ تنویر الأبصار مع الدر والرد ‘‘ : وصح الثنی فصاعداً من الثلاثۃ ، وہو ابن خمس من الإبل، وحولین من البقر والجاموس ، وحول من الشاۃ ۔ تنویر مع الدر ۔ قال الشامي رحمہ اللہ تعالی : قولہ : (والجاموس) نوع من البقر ، وکذا المعز نوع من الغنم ، بدلیل ضمہا في الزکاۃ ۔ (۹/۳۹۰ ، الأضحیۃ)
ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أما جنسہ فہو أن یکون من الأجناس الثلاثۃ : الغنم أو الإبل أو البقر ، ویدخل في کل جنس نوعہ والذکر والأنثی منہ والخصي والفحل لانطلاق إسم الجنس علی ذلک، والمعز نوع من الغنم ، والجاموس نوع من البقر ، بدلیل أنہ یضم ذلک الغنم والبقر في باب الزکاۃ ۔
(۴/۲۰۵، کتاب الأضحیۃ ، فصل محل إقامۃ الواجب)
ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : قال رحمہ اللہ : (والأضحیۃ من الإبل والبقر والغنم) لأن جواز التضحیۃ بہذہ الأشیاء عرف شرعاً بالنص علی خلاف القیاس فیقتصر علیہا ، ویجوز بالجاموس لأنہ نوع من البقر ۔
(۶/۴۸۳ ، کتاب الأضحیۃ ، البحر الرائق :۸/۳۲۴ ، کتاب الأضحیۃ ، فتاوی قاضي خان:۴/۳۳۱ ، کتاب الأضحیۃ ، فصل فیما یجوز في الضحایا ۔۔ الخ) (فتاوی محمودیہ :۲۶/۲۶۱،المسائل المہمۃ:۵/۱۳۰)