رات میں قربانی
مسئلہ(۲۷): دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک جس طرح دن میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، اسی طرح درمیان کی دو راتوں میں بھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، مگر مکروہ ہے، اور اس کراہت کی علت رات کی تاریکی میں مطلوبہ رگوں میں سے کسی رگ کے نہ کٹنے یا مقدار ذبح سے زائد کٹ جانے کا اندیشہ ہے، لیکن اگر رات کو ایسی معقول روشنی کا انتظام ہو کہ اس طرح کا شبہ واندیشہ نہ رہے، تو یہ کراہت باقی نہیں رہے گی، اور رات میں بھی بلاکراہت قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہوگا ۔(۱)
------------------------------
=ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ان الرجل إذا کان فی مصر وأہلہ فی مصر آخر فکتب إلیہم لیضحوا عنہ فإنہ یعتبر مکان التضحیۃ ، فینبغی أن یضحوا عنہ بعد فراغ الإمام من صلاتہ فی المصر الذی یضحی عنہ فیہ ۔ (۵/۲۹۶، کتاب الأضحیۃ، الباب الرابع)
ما فی ’’ الدر المحتار مع الشامیۃ ‘‘ : والمعتبر مکان الأضحیۃ لا مکان علیہ، فحیلۃ مصري أراد التعجیل أن یخرجہا الخارج المصر، فیضحی بہا إذا طلع الفجر ۔ درمختار۔
قولہ : (والمعتبر مکان الأضحیۃ) فلو کانت فی السواد والمضحی فی المصر جازت قبل الصلاۃ وفی العکس لم تجز ۔(۹/۴۶۱، کتاب الأضحیۃ ، ہدایہ أخیرین : ۴۳۰، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : فصل : وأما وقت الوجوب فأیام النحر فلا تجب قبل دخول الوقت لأن الواجبات المؤقتۃ لا تجب قبل أوقاتہا کالصلاۃ والصوم ونحوہما، وأیام النحر ثلاثۃ : یوم الأضحی وہو الیوم العاشر من ذی الحجۃ، والحادی عشر والثانی عشر، وذلک بعد طلوع الفجر من الیوم الأول إلی غروب الشمس من الثانی عشر ۔ (۴/۱۹۸،کتاب الأضحیۃ)
(فتاوی رحیمیہ :۱۰/۲۸۔۴۰،المسائل المہمۃ:۳/۳۱۴)=