قرض لے کر قربانی
مسئلہ(۵): اگر کسی شخص کی ملکیت میں اس کی ضرورت سے زائد، نصاب کے بقدر مال ہو، یا نقد روپیہ ہو، لیکن وہ کہیں غائب ہو، یا کسی کو قرض دے رکھا ہو، او رقربانی کے دنوں میں اس کی وصولی اور ملنا ممکن نہ ہو، اور اس کے پاس اتنا بھی مال نہ ہو، جس سے وہ قربانی کا جانور خرید سکے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی، اور نہ ہی اس پر قرض لے کر قربانی کرنا لازم ہوگا، کیوں کہ مال کی عدمِ موجودگی کی وجہ سے وہ فقیر کے حکم میں ہے۔(۱)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : سئل علي بن أحمد عن رجل لہ دین مؤجل ، أو غیر مؤجل علی رجل وہو مقر حتی جاء یوم النحر ، ولیس في ید رب الدین شيء یمکنہ شراء الأضحیۃ ہل علیہ أن یستقرض ، ویشتري أضحیۃ یضحي بہا فقال : لا ، قیل لہ : ہل یجب علیہ قیمۃ الأضحیۃ إذا وصل إلیہ الدین بعد فوات الوقت ، قال : لا ، قیل : ہل یجب علی رب الدین أن یسأل منہ عن الدین إذا غلب علی ظنہ لو سأل منہ ثمن الأضحیۃ یعطیہ فیلزمہ منہ ، وإن کان مؤجلا فقال : نعم ۔ (۱۷/۴۶۴ ، کتاب الأضحیۃ ، الفصل التاسع في المتفرقات ، رقم المسئلۃ :۲۷۸۴۶ ، الفتاوی الہندیۃ :۵/۳۰۷ ، کتاب الأضحیۃ ، الباب التاسع في المتفرقات)
ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وکذا لو کان مال غائب لا یصل إلیہ في أیام النحر ، لأنہ فقیر وقت غیبۃ المال حتی تحل لہ الصدقۃ بخلاف الزکاۃ فإنہا تجب علیہ ، لأن جمیع العمر وقت الزکاۃ وہذہ قربۃ مؤقتۃ فیعتبر الغنی في وقتہا ۔ (۴/۱۹۶، کتاب الأضحیۃ ، فصل شرائط الوجوب ، الفتاوی الہندیۃ :۵/۲۹۲، کتاب الأضحیۃ ، الباب الأول الخ)
(مسائل قربانی :ص/۶۴، ۶۵، مولانا عبد المعبود صاحب،المسائل المہمۃ:۸/۱۷۲)