پیدائشی طور پر جانور کی دُم نہ ہو
مسئلہ(۹۹): جس جانور کی پیدائشی طور پر دُم ہی نہ ہو، تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اُس کی قربانی درست ہے، جب کہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اُس کی قربانی جائز نہیں ہے، اِس لیے احتیاط اِسی میں ہے کہ اُس کی قربانی نہ کی جائے۔(۱)
------------------------------
=(۵/۸۵، البحر الرائق : ۸/۳۲۳، الفقہ الإسلامی وأدلتہ :۴/۲۷۲۷)
(۳) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وإن بلغ الکسر المشاش لا یجزیہ ، والمشاش رؤس العظام مثل الرکبتین والمرفقین ،کذا فی البدائع ۔
(۵/۲۹۷، کتاب الأضحیۃ ، الباب الخامس فی بیان محل إقامۃ الواجب)
ما فی ’’ رد المحتار ‘‘ : إن بلغ الکسر إلی المخ لم یجز ’’ قہستانی ‘‘ ۔ وفی ’’ البدائع ‘‘ : إن الکسر المشاش لا یجزی ، والمشاش رؤوس العظام مثل الرکبتین والمرفقین ۔
(۹/۳۹۱، کتاب الأضحیۃ)
(فتاوی محمودیہ : ۱۷/۳۸۳؍۳۸۴، فتاوی دارالعلوم دیوبند : ۱۵/۵۳۲،المسائل المہمۃ:۴/۱۷۳)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : الشاۃ إذا لم یکن لہا أذن ولا ذنب خلقۃ ، قال محمد : لا یکون ہذا ، ولو کان لا یجوز ۔ وذکر في الأصل عن أبي حنیفۃ أنہ یجوز ۔ خانیۃ ۔ (۹/۴۷۰ ، و۹/۳۹۳ ، کتاب الأضحیۃ ، بیروت ، ودار الکتاب دیوبند)
(کتاب المسائل:۲/۳۱۸، احسن الفتاویٰ:۷/۵۱۷، کتاب الاضحیۃوالعقیقۃ، بنگلہ اسلامک اکیڈمی دہلی)
( المسائل المہمۃ:جلد ۹، غیر مطبوعہ)