تکبیرتشریق
مسئلہ(۱۱۶): تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے لے کر تیرھویں ذی الحجہ کی عصر تک، فرض نماز کے فورًا بعدایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے،یہاں تک کہ اگرجان بوجھ کر وضو توڑ ڈالا توتکبیرتشریق ساقط ہو جائیگی۔
تکبیرتشریق کہنا مقیم ،مسافر ،مرد، عورت ،امام، مقتدی سب پر واجب ہے، اگر تکبیر تشریق کہنا بھول گیا تو پھر بعد میں اس کی قضا نہیں ہے، توبہ کرنا لا زم ہوگا تاکہ گناہ معاف ہوجائے ۔(۱)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما وقتہ فأولہ عقب صلوۃ الفجر من یوم عرفۃ وأخرہ في قول أبي یوسف ومحمد رحمہما اللہ عقیب صلوۃ العصر من آخر أیام التشریق ہکذا في التبیین، والفتوی والعمل في عامۃ الأمصار وکانۃ الأعصار علی قولھما کذا في الزاھدي۔ (۱/۱۵۲، بدائع الصنائع : ۱/۶۱۹،کتاب الصلاۃ ، فصل : وأما بیان وقت أدائہا، دیوبند ، البحرالرائق :۲/۱۶۵، شامي :۲/۱۷۸، سعیدیہ)
ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (وقالا بوجوبہ فور کل فرض مطلقا) ولو منفردا أو مسافرا أو امرأۃ لأنہ تبع للمکتوبۃ ۔
(۲/۱۸۰، سعیدیہ ، بدائع الصنائع:۱/۱۹۷، البحرائق ۲/۱۶۶، الفتاوی الہندیۃ:۱/۱۵۲)
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وینبغي أن یکبر متصلا بالسلام حتی لو تکلم أو أحدث متعمداً سقط، کذا في التہذیب ۔ (۱/۱۵۲، البحر الرائق:/۲/۱۶۵)
ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ :(ویجب تکبیر التشریق) في الأصح للأمر بہ مرۃ وإن زاد علیھا یکون فضلا ۔ (۲/۱۷۷،سعیدیہ ، الفتاوی الھندیۃ:۱/۱۵۲، البحر الرائق:۲/۱۶۴)
ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : وأما محل أدائہ فدبر الصلاۃ وفورھا من غیر أن یتخلل ما یقطع یقطع حرمۃ الصلاۃ حتی لو ضحک ۔۔۔۔۔۔۔ أو تکلم عائدا أو ساھیاً أو خرج لا یکبر لأن تکبیر من خصائص الصلاۃ حیث لا یوتی بھا إلا عقب الصلاۃ فیراعی لإتیانہ حرمتھا وھذہ العوارض تقطع حرمتھا ۔
(۲/۲۸۸، بدائع الصنائع :۱/۱۹۶، أما محل أدائہ) (المسائل المہمۃ:۲/۱۷۵)