دوسرے کی طر ف سے قربانی
مسئلہ(۲۰): دوسرے کی طر ف سے واجب قربانی کی اجازت لینا ضروری ہے، ور نہ دوسرے کی واجب قربانی ادانہ ہو گی، اگر کسی علاقے میں اپنے متعلقین کی طر ف سے قربانی کرنے کی عادت اور رواج ہو تو اپنے متعلقین کی طرف سے انکی اجازت کے بغیر واجب قربانی درست ہو جائیگی۔(۱)
------------------------------
= لکونہا قربۃ محضۃ فلا تجب علی لغیر بسبب الغیر ۔ (۴/۱۶۷)
ما في ’’رد المحتار ‘‘ : قولہ : (لا عن طفلہ) أي من مال الأب ، وفي ظاہر الروایۃ أنہ یستحب ولا یجب ۔(۹/۳۸۲ ، بدائع الصنائع :۴/۱۹۷، تبیین الحقائق :۶/۴۷۵)
(المسائل المہمۃ:۲/۱۵۴)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنھا إذن صاحب الأضحیۃ بالذبح إما نصاً أو دلالۃ إذا کان الذابح غیرہ، فإن لم یوجد لا یجوز لأن الأصل فیما یعملہ الإنسان أن یقع للعامل وإنما یقع لغیرہ بإذنہ فإذا لم یوجد لا یقع لہ ۔
(۴/۲۱۱، کتاب الأضحیۃ ، البحرالرائق : ۸/۳۲۶ ،کتاب الأضحیۃ)
ما في ’’رد المحتار ‘‘ : قال في الذخیرۃ : ولعلہ ذھب إلی أن العادۃ إذا جرت من الأب في کل سنۃ صار کالإذن منھم ۔ (۹/۳۸۲ ، کتا ب الأضحیۃ)
ما في ’’ الأشباہ والنظائر ‘‘ : ’’ إنما تعتبر العادۃ إذا اطردت أو غلبت ‘‘ ۔ ’’ العادۃ محکمۃ‘‘ ۔ (ص/۳۳۳) (المسائل المہمۃ:۲/۱۵۴)