دانت گھسے ہوئے جانور کی قربانی
مسئلہ(۱۱۰): جس جانور کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے سارے دانت گرگئے ہوں، یا گھِس گھِس کر مسوڑھوں سے جا ملے ہوں، لیکن وہ گھاس کھانے پر قادر ہے، تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر گھاس کھانے پر قادر نہیں ہے، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔(۱)
------------------------------
=(۳) ما في ’’ رد المحتار‘‘ : قال ابن عابدین الشامي رحمہ اللہ تعالی : والمستحب أن یکون سلیماً عن العیوب الظاہرۃ ۔ (۹/۴۶۸ ،کتاب الأضحیۃ ، الفتاوی الہندیۃ : ۵/۲۹۷، الباب الخامس في بیان محل إقامۃ الواجب)(المسائل المہمۃ:۵/۱۲۸)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما الہتماء ، وہي التي لا أسنان لہا ، فإن کانت ترعی وتعتلف جازت وإلا فلا ۔ کذا في البدائع ۔
(۵/۲۹۸، کذا في البدائع :۴/۲۱۵، کتاب التضحیۃ ، أما شرائط جواز إقامۃ الواجب)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما الأنعام التي تجزئ التضحیۃ بہا ، لأن عیبہا لیس بفاحش فہي الہثماء وہي التي لا أسنان لہا ، لکن یشترط في إجزائہا ألا یمنعہا الہثم عن الرعي والاعتلاف ، فإن منعہا عنہما لم تجزئ ، وہو مذہب الحنفیۃ ۔ (۵/۸۶)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : ولا بالہثماء التي لا أسنان لہا ، ویکفي بقاء الأکثر ، وقیل ما تعتلف بہ ۔ (۹/۳۹۳)
ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : ولا یجوز بالہثماء التي لا أسنان لہا إن کانت لا تعتلف ، وإن کانت تعتلف جاز ، وہو الصحیح ۔
(۸/۳۲۳ ، کتاب الأضحیۃ ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ :۵/۲۷۲۷)
(المسائل المہمۃ:۵/۱۲۹)