مرنے کے بعد عقیقہ
مسئلہ(۱۲۲): عقیقہ زندگی میں کیا جاتا ہے، مرنے کے بعد عقیقہ کا مستحب ہونا ثابت نہیں ہے(۱)، اگر مردہ بچہ کے عقیقہ کو مستحب نہ سمجھا جائے ، محض شفاعت کی امید اور مغفرت کی لالچ سے کردیا جائے، تو گنجایش معلوم ہوتی ہے، جیسے کسی نے حج نہیں کیا اور بلا وصیت مرگیا، اور وارث نے اس کی مغفرت کی امید پر اپنے خرچ سے حج بدل کیا ، تو امید ہے کہ حق تعالیٰ قبول فرمائے(۲)، اِس صورت میں عقیقہ کا جانور مستقل ہو، احتیاطاً قربانی کے جانور میں شرکت نہ کرے۔(۳)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ اعلاء السنن ‘‘ : عن بریدۃ أن النبي ﷺ قال : ’’ العقیقۃ لسبع أو أربع عشرۃ أو إحدی وعشرین ‘‘ ۔ رواہ الطبراني ۔ (۱۷/۱۳۱)
ما في ’’ فیض الباري ‘‘ : ان الغلام إذا لم یعق عنہ ، فمات لم یشفع لوالدیہ ، ثم أن الترمذي أجاز بہا إلی یوم إحدی وعشرین ، قلت : بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي ﷺ عقّ عن نفسہ بنفسہ ۔ (۵/۶۴۸)
(۲) ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : لو مات رجل بعد وجوب الحج ولم یوص بہ فحج رجل عنہ ، أو حج عن أبیہ أو أمہ عن حجۃ الإسلام من غیر وصیۃ ، قال أبو حنیفۃ : یجزیہ إن شاء اللہ ۔
(۴/۱۷)
(۳) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : ومن معاني الاحتیاط لغۃ : الأخذ في الأمور بالأحزم والأوثق وبمعنی المحاذرۃ ، ومنہ القول السائر : أوسط الرأي الإحتیاط ، وبمعنی الاحتراز من الخطأ واتقائہ ۔ (۲/۱۰۰) (فتاویٰ رحیمیہ:۱۰/۶۲،المسائل المہمۃ:۶/۱۶۸، مسئلہ:۱۲۳)