دُم کٹے جانور کی قربانی
مسئلہ(۱۰۰): اگر دُم کا اکثر حصہ کٹا ہو، تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے، اور اگر معمولی حصہ کٹا ہے، تو اُس کی قربانی درست ہے۔(۱)
ایک ہی تھن سے دودھ دینے والے جانور کی قربانی
مسئلہ(۱۰۱): اگر بھیڑ ، بکری ، دنبی وغیرہ کے ایک تھن سے دودھ نہ اتر تا ہو، تو اس کی قربانی درست نہیں ہے، کیوں کہ ایک تھن سے دودھ نہ اتر نا بھیڑ، بکری، دنبی وغیرہ میں عیب ہے، اور عیب دار جانور کی قربانی کرنے سے قربانی درست نہیں ہوتی ہے ۔(۲)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ ‘‘ : وإذا ذہب بعض العین ۔۔۔۔۔ أو بعض الذنب ۔۔۔۔۔ فإن کان الذاہب کثیرًا منع جواز الأضحیۃ ، وإن کان الذاہب قلیلا لا یمنع جواز الأضحیۃ ۔
(۱۷/۴۲۹ ، زکریا دیوبند ، الشامیۃ :۹/۴۶۸ ، زکریا ، و۹/۳۹۲ ، دار الکتاب دیوبند ، و۶/۳۲۳ ، کراچي ، البحر الرائق :۹/۳۲۳ ، زکریا ، و۸/۳۲۳ ، ۳۲۴ ، دار الکتاب دیوبند ، الفتاوی الہندیۃ : ۵/۲۹۷) (جواہر الفقہ:۱/۴۵۰،دیوبند، فتاویٰ رحیمیہ:۱۰/۴۸، کراچی، آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۵/۴۳۷، جدید، و۴/۱۸۸، قدیم، جامع الفتاویٰ: ۸/۱۶۵، ملتان،کتاب المسائل:۲/۳۱۸، اسماعیل،المسائل المہمۃ:جلد ۹، غیر مطبوعہ)
(۲) ما فی ’’ رد المحتار ‘‘ : قال الشامی تحت قولہ : (وہی التی عولجت) فاقطع اللبن عن إحدی ضرعیہا ۔ (۹/۳۹۳ ، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والشطور لا تجزی ، وہی من الشاۃ ما قطع اللبن عن إحدی ضرعیہا ۔ (۵/۲۹۹، کتاب الأضحیۃ ، الباب الخامس ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۵/۸۳، الفقہ الإسلامي وأدلتہ :۴/۲۷۲۷، البحر الرائق : ۸/۳۲۳، کتاب الأضحیۃ)
(فتاوی محمودیہ : ۱۷/۳۸۰،المسائل المہمۃ:۴/۱۷۴)