قربانی کی نیت سے قربانی کا وجوب
مسئلہ (۱۰): بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گھر میں پالے ہوئے جانور کے بارے میں اگر کسی شخص نے قربانی کی نیت کرلی، تو اس نیت سے اس جانور کی قربانی کرنا لازم ہوجاتا ہے، اور ایسے جانور کو بدلنا اور فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، جب کہ یہ خیال صحیح نہیں ہے، جانور کے پہلے سے ملکیت میں ہوتے ہوئے اس میں قربانی کی نیت کرلینے سے اس کی قربانی لازم نہیں ہوتی ہے، اس جانور کے علاوہ دوسرے جانور کی بھی قربانی کرسکتا ہے ۔(۱)
------------------------------
= حرام بالإجماع للنصوص القطعیۃ ، وقد سمی علیہ الصلاۃ والسلام الریاء الشرک الأصغر وہذہ النیۃ لتحصیل الثواب لا لصحۃ العمل ؛ لأن الصحۃ تتعلق بالشرائط والأرکان ، والنیۃ ہي شرط لصحۃ الصلاۃ ۔۔۔۔۔ الریاء الکامل المحبط للثواب من أصلہ کما إذا صلی لأجل الناس ولولا ہم ما صلی ۔ (۹/۵۲۲،کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع ، البحر الرائق :۸/۳۷۸ ، فصل في البیع ، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۱۶۱، القاعدۃ الأولی ، الباب الخامس)
(کتاب المسائل:۲/۲۹۹، مسائل قربانی وعقیقہ:ص/۲۷، بحوالہ کتاب المسائل، المسائل المہمۃ:جلد۹، غیر مطبوعہ)
(۱) ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (شراہا لہا) فلو کانت فی ملکہ فنوی أن یضحی بہا أو اشتراہا ولم ینو الأضحیۃ وقت الشراء ، ثم نوی بعد ذلک لا یجب ، لأن النیۃ لم تقارن الشراء فلا تعتبر ۔
(۹/۳۸۹، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : إذا اشتری شاۃ للأضحیۃ وہو موسر ثم إنہا ماتت ۔۔۔۔۔ فی أیام النحر أنہ یجب علیہ أن یضحی بشاۃ أخری ، لأن الوجوب فی جملۃ الوقت ، والمشتریٰ لم یتعین للوجوب ، والوقت باق ۔ (۴/۱۹۹، کتاب الأضحیۃ)
ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : لو ملک إنسان شاۃ فنوی أن یضحی بہا أو اشتری شاۃ ولم ینو الأضحیۃ وقت الشراء ، ثم نوی بعد ذلک أن یضحی بہا لا تجب علیہ ، سواء کان غنیاً أو فقیراً ۔
(۵/۲۹۱، کتاب الأضحیۃ ، الباب الأول)(المسائل المہمۃ:۴/۱۶۷)