چرم قربانی سے خود فائدہ اٹھانا
مسئلہ(۳۹): قربانی کی کھال سے خود فائدہ اٹھانا یا کسی کو دے دینا دونوں جائز ہے، خواہ وہ شخص جس کو یہ کھال دی جارہی ہے مالدار ہو یا فقیر،ہاشمی ہو یا غیر ہاشمی،اپنے اصول و فروع ہوں یا اجنبی،نیزاس میں تملیک بھی واجب نہیںہے، اسی لیے خود اپنے لیے اس کا مصلیٰ اورڈول وغیرہ بنا لینا یا کسی اورکام میں لانا جائز ہے۔(۱)
------------------------------
=ما في ’’ الجامع لأحکام القرآن للقرطبي ‘‘ : وأجمعوا علی أن الأمانات مردودۃ إلی أربابہا الأبرار منہم والفجار ۔ (۵/۲۵۶)
ما في ’’ السنن لأبي داود ‘‘ : قولہ علیہ السلام : ’’ أد الأمانۃ إلی من ائتمنک ‘‘ ۔
(ص/۴۹۸ ، کتاب البیوع ، باب في الرجل یأخذ حقہ من تحت یدہ)
ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : اتفق الفقہاء علی أن المقبوض في ید الوکیل یعتبر أمانۃ بمنزلۃ الودیعۃ ۔ (۵/۴۰۱۹،کتاب الوکالۃ)
ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘: ’’ لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک الغیر بغیر إذنہ ‘‘ ۔
(ص/۱۱۰، رقم المادۃ :۲۷۰) (المسائل المہمۃ:۲/۱۶۲)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : { فکلوا منہا وأطعموا البائس الفقیر} ۔(الحج :۲۸)
ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : ولما جاز الأکل منھا دل علی جواز الانتفاع بجلودھا من غیر جھۃ البیع ، ولذلک قال أصحابنا: یجوز الانتفاع بجلد الأضحیّۃ ، وقال الشعبي: کان مسروق یتخذ مَسک أضحیتہ مصلّی فیصلي علیہ ۔ (۳/۳۱۰)
ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : ویتصدق بجلدھا أو یعملہ آلۃ کجراب أو خف أو فرو ۔ (۴/۱۷۴، رد المحتار : ۹/۳۹۸ ، البحر الرائق : ۸/۳۲۷)(فتاوی محمودیہ: ۱۷/۴۶۹،المسائل المہمۃ:۲/۱۶۴)