کھال کی رقم میں حیلہ
مسئلہ(۴۴): قربانی کی کھال کو فروخت کرنے کے بعد اس کی قیمت کی رقم فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا یعنی ان کو مالک بناکر دینا ضروری ہے، فقراء ومساکین کے علاوہ کسی اور مصرف میں صرف کرنا جائز نہیںہے، اگر شدید مجبوری کی صورت میں ایسی رقم کو کسی اور مصرف میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے تو حیلہ کرنا ضروری ہے، اور حیلہ کی صورت یہ ہے کہ کھال فروخت کرنے کے بعد جو رقم حاصل ہوگی وہ رقم کسی مسکین یا فقیر کو دے کر مکمل طور پر مالک بنادیا جائے، پھر اس سے کہا جائے کہ آپ اپنی طرف سے اس رقم کو مثلاً مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا اساتذہ کرام کی تنخواہ وغیرہ میں دیدیں، اور وہ خوشی سے دیدے، تو اس رقم کو مسجد، مدرسہ یا اساتذہ کرام وغیرہ کی تنخواہ وغیرہ میں دینا اور خرچ کرنا جائز ہوگا، مگر رقم دیتے وقت یہ شرط نہ رکھے بلکہ مالک بناکر دینے کے بعد اس سے کہے۔(۱)…اگر قربانی کرنے والے نے قربانی کی کھال کسی فقیر مستحق آدمی کو دیدی، اور وہ شخص جس کو کھال دی ہے، کھال کو فروخت کرکے کسی پڑھانے والے استاد کو تنخواہ دیدے ، یا مسجد کی تعمیر میں خرچ کردے تو جائز ہے، لیکن اگر قربانی کرنے والا خود فروخت کرے تو پھر وہ اس کھال کے روپئے کو معلم وغیرہ کی تنخواہ یا مسجد میں نہیں دے سکتا، بلکہ صدقہ کردینا لازم ہوگا۔(۲)
------------------------------
=ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستھلک أو بدراھم تصدق بثمنہ ومفادہ صحۃ البیع مع الکراہۃ وہو قول أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ لقیام الملک والقدرۃ علی التسلیم ۔ (۹/۳۹۸ ، البحر الرائق : ۸/۳۲۷ ، تبیین الحقائق :۶/۴۸۶، اعلاء السنن :۱۷/۲۸۰) (المسائل المہمۃ:۲/۱۷۱)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱-۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وحیلۃ التکفین بہا التصدق علی فقیر ثم ہو یکفن فیکون الثواب لہما ، وکذا في تعمیر المسجد وتمامہ في حیل الأشباہ ۔ (۲/۲۷۱، البحر الرائق :۲/۲۴۳،=