مسائلِ عقیقہ
عقیقہ کب تک؟
مسئلہ(۱۱۸): والد کے ذمہ اپنے لڑکے یا لڑکی کا عقیقہ کرنا، بلوغت سے پہلے، ساتویں دن، چودہویں دن، یا اکیسویں دن مستحب ہے، بلوغت کے بعد عقیقہ والد کے ذمہ باقی نہیں رہتابلکہ ساقط ہوجاتا ہے، البتہ بلوغت کے بعد لڑکا یا لڑکی خود اپنا عقیقہ کرے، یا کوئی اور شخص مثلاً کوئی عزیز یا شوہر اپنی طرف سے اپنی بیوی کا عقیقہ کردے تو درست ہوگا(۱)، اور رہی بات لڑکی کے نام کے ساتھ کس کا نام رہے گا، شوہر یا باپ کا؟ تو اس کے نام کے ساتھ اس کے باپ کا نام رہے گا۔(۲)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ اعلاء السنن ‘‘ : عن بریدۃ أن النبي ﷺ قال : ’’العقیقۃ لسبع أو أربع عشرۃ أو إحدی وعشرین‘‘۔ رواہ الطبرانی فی الصغیر والأوسط ۔ (۱۷/۱۳۱، باب افضلیۃ ذبح الشاۃ الخ)
ما فی ’’ فتح الباری ‘‘ : فنقل الرافعی أنہ یدخل وقتہا بالولادۃ ، قال : وذکر السابع فی الخبر بمعنی أن لا تؤخر، ثم قال : والإختیار أن لا تؤخر عن البلوغ ، فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنہ، لکن إن أراد أن یعق عن نفسہ فعل ۔ (۹/۵۹۶، باب إماطۃ الأذی عن الصبی فی العقیقۃ)
(۲) ما فی ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ادعوہم لآبائہم ہو أقسط عند اللہ} ۔ (الأحزاب:۵)
ما فی ’’ المغني ‘‘ : روي عن النبي ﷺ أنہ قال : ’’ إنکم تدعون یوم القیامۃ بأسمائکم وأسماء آبائکم‘‘۔ (۱۱/۱۲۳، فصل ، ۷۸۹۹ ، بیروت)(المسائل المہمۃ:۳/۳۱۸،۳۱۹)