گذشتہ سال کی قربانی
مسئلہ(۲۳): گذشتہ سال کی قربانی باقی ہے تو اس کی قیمت صدقہ کردینا واجب ہے، اگر کسی نے بڑے جانور میں دو حصے لیے،اس نیت سے کہ ایک حصہ سالِ رواں کی قربانی کا حصہ ہے، اور ایک حصہ گذشتہ سال کی قربانی ہے، تو اس صورت میں تمام شریکوں کی قربانی ادا ہوجائے گی، البتہ اس آدمی کے سال رواں کی قربانی ادا ہوجائے گی اور گذشتہ سال کی قضا کی نیت سے جو قربانی کی وہ ادا نہیں ہوگی، نفل ہوجائے گی، اور گذشتہ قربانی کے عوض ایک بکرے کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔(۱)
------------------------------
=القربۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز أصلا ۔ (۹/۳۹۵ ،کتاب الأضحیۃ ، البحرالرائق :۸/۳۲۵)
ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وہکذا قال أبو یوسف رحمہ اللہ : ولو کان أحد الشرکاء ذمیا، کتابیا أو غیر کتابي وہو یرید اللحم أو أراد القربۃ في دینہ لم یجز عندنا ۔ (۴/۲۰۹)
(جامع الفتاوی:۴/۷۷، احسن الفتاوی:۷/۵۰۳، کفایت المفتی: ۸/۲۰۵،المسائل المہمۃ:۲/۱۵۷)
(۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ومنہا انہ تقضی إذا فاتت عن وقتہا ثم قضاء ہا قد یکون بالتصدق بعین الشاۃ حیۃ وقد یکون بالتصدق بقیمۃ الشاۃ ۔ (۵/۲۹۴، ط : زکریا ، بدائع الصنائع :۵/۶۶، فصل أما کیفیۃ الوجوب، ط : سعید ، شامیۃ :۶/۳۲۱ ، ط : سعید)
وما في ’’ الہندیۃ ‘‘ : وإن نوی بعض الشرکاء التطوع وبعضہم یرید الأضحیۃ للعام الذي صار دینا علیہ وبعضہم الأضحیۃ الواجبۃ عن عامہ ذلک جاز الکل ، وتکون عن الواجب عمن نوی الواجب عن عامہ ذلک ، وتکون تطوعا عمن نوی القضاء عن العام الماضي ، ولا تکون عن قضائہ بل یتصدق بقیمۃ شاۃ وسط لما مضی ۔ (۵/۳۰۵، الباب الثامن ، ط: رشیدیہ ، البحر الرائق :۸/۱۷۸، ط : سعید)(قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا:ص/۱۴۵)