اجتماعی قربانی
مسئلہ(۳۰): موجودہ دور میں اجتماعی قربانی کا رواج عام ہورہا ہے، اور بہت سارے ادارے یہ خدمت انجام دے رہے ہیں، شرعاً یہ جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے (۱)، لیکن اجتماعی قربانی میں مشترکہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے جن سات شریکوں کی طرف سے یہ قربانی ہے، ان کی تعیین اور ذبح کرتے وقت ان کی طرف سے قربانی کی نیت کرنا ضروری ہے، ورنہ تعیین نہ ہونے کی وجہ سے قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔ (۲)
------------------------------
=مضي وقتہا لو لم یصلوا لعذر ۔ الدر المختار ۔ قال الشامی رحمہ اللہ تعالی : ووقت الصلوٰۃ من الإرتفاع إلی الزوال ۔ (۹/۳۸۶، کتاب الأضحیۃ) (فتاوی محمودیہ : ۱۷/۴۵۳،المسائل المہمۃ:۴/۱۶۸)
(۲) ما فی ’’ رد المحتار ‘‘ : ولو ضحی بعد ما صلی أہل المسجد ولم یصل أہل الجبانۃ أجزأہ استحساناً ، لأنہا صلوٰۃ معتبرۃ ، حتی لو اکتفوا بہا أجزأتہم ۔
(۹/۳۸۵، کتاب التضحیۃ ، تبیین الحقائق :۶/۴۷۷ ، البحر الرائق : ۸/۳۲۲)
ما فی ’’ فتاوی قاضی خان علی ہامش الہندیۃ ‘‘ : ولو خرج الإمام بطائفۃ إلی الجبانۃ وأمر رجلاً لیصلی بالضعفۃ فی المصر ، وضحی بعد ما صلی أحد الفریقین جاز استحساناً ۔
(۳/۳۴۴، فصل فی صفۃ الأضحیۃ ووقت وجوبہا)(فتاوی محمودیہ : ۱۷/۴۵۵،المسائل المہمۃ:۴/۱۶۹)
ما فی ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : إذا صلی أہل أحد المسجدین أیہما کان جاز ذبح الأضاحی، وذکر فی الأصل : إذا صلی أہل المسجد فالقیاس أن لا یجوز ذبح الأضحیۃ ، وفی الاستحسان یجوز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ووجہ الاستحسان أن الشرط صلوٰۃ العید ، والصلوٰۃ فی المسجد الجامع تجزی عن صلوٰۃ العید بدلیل أنہم لو اقتصروا علیہا جاز ، ویقع الاکتفاء بذلک فقد وجد الشرط فجاز ۔ (۴/۱۱۱-۲۱۲، کتاب التضحیۃ)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما فی ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والبقر والبعیر یجزی عن سبعۃ إذا کانوا یریدون وجہ اللہ ، والتقدیر بالسبع یمنع الزیادۃ ، ولا یمنع النقصان ، کذا فی الخلاصۃ ۔ (۵/۳۰۴)=