لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ایک آدمی کو دیکھا کہ پراگندہ حال اور بکھرے ہوئے بال کے ساتھ ہے، تو فرمایا: کیا یہ کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے اپنے بالوں کی پراگندگی کو دور کردے ۔ اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کے کپڑے میلے کچیلے تھے، فرمایا کہ اسے کوئی ایسی چیز میسر نہیں جس سے یہ اپنے کپڑوں کو دھو سکے۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا قَدْ تَفَرَّقَ شَعْرُهُ فَقَالَ: أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ، وَرَأَى رَجُلًا آخَرَ وَعَلْيِهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ أَمَا كَانَ هَذَا يَجِدُ مَاءً يَغْسِلُ بِهِ ثَوْبَهُ۔(ابوداؤد:4062) اِس سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے کپڑے صاف ستھرے رکھنے چاہیئے ، امام شافعی کا مشہور قول ہے :”مَنْ نَظَّفَ ثَوْبَهُ قَلَّ هَمُّهُ “۔جس کے کپڑے صاف ستھرے ہوتے ہیں اُس کے غم اور فکریں کم ہوتی ہیں۔(عون المعبود:11/76) حضرت ابو الاحوص، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے پاس میلے کپڑوں میں حاضر ہوا تو آپ ﷺنے فرمایا : کیا تمہارے پاس مال ہے؟میں نے عرض کیا جی ہاں۔ پوچھا: کیا مال ہے؟ میں نے کہا اللہ نے مجھے اونٹ، بکری، گھوڑے اور غلام وغیرہ سب ہی کچھ دے رکھا ہے ،فرمایا : جب اللہ نے تمہیں مال دیا ہے تو اللہ کی نعمت کا اثر اور اُس کی جانب سے ملنے والی عزّت و کرامت تمہارے اوپر ظاہر بھی ہونی چاہیئے ۔عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: «أَلَكَ مَالٌ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟» قَالَ: قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنَ الإِبِلِ، وَالْغَنَمِ، وَالْخَيْلِ، وَالرَّقِيقِ، قَالَ:فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ، وَكَرَامَتِهِ۔(ابوداؤد:4063) حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں : نبی کریمﷺمیرے پاس گھر میں تشریف لائے، مجھ سےاِرشاد فرمایا :اے عائشہ ! اِن دونوں چادروں کو دھودو ، حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، یا رسول اللہ ! میں نے کل ہی انہیں دھویا ہے ، آپﷺنے اِرشاد فرمایا :کیا تم جانتی نہیں ہو کہ کپڑا بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتا ہے ، اور جب وہ گندا ہوجاتا ہے تو اُس کی تسبیح بند ہوجاتی ہے ۔عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي: يَا عَائِشَةُ اغْسِلِي هَذَيْنِ الْبُرْدَيْنِ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ بِالأَمْسِ غَسَلْتُهُمَا، فَقَالَ لِي: أَمَا عَلِمْتِ أَنَّ الثَّوْبَ يُسَبِّحُ، فَإِذَا اتَّسَخَ انْقَطَعَ تَسْبِيحُهُ۔(أخرجہ الخطیب فی تاریخہ :4772)(کنز العمال :26009)