عباسیوں کی سلطنت کے وقت میں بنائی گئی ہیں… اور سچ یہ ہے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ شخص تو ہی ہے۔ (کشف الغطاء ص۱۲، خزائن ج۱۴ ص۱۹۳)
پس ناظرین یاد رکھئے کہ جب مرزا قادیانی نے خود امام مہدی آخر الزمان کی آمدن سے صاف صاف انکار کردیا ہے تو پھر اپنی زبان سے میاں مٹھو طوطا کہلانا دروغ گور احافظہ نباشد کی مثال صادق آگئی یا نہیں۔ اور اس کو امام مہدی ماننے والا کذاب تصور ہوگا یا نہیں؟ فقط!
(المجیب ابو المنظور محمد نظام الدین ملتانی عفی عنہ)
سوال… نبی ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنا درست ہے یا نہیں اور جو شخص یہ کہے کہ میں بروزی یا ظلی نبی ہوں اس کے لئے شرعاً حکم کیا ہے؟
جواب… آنحضورﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنا صریح کفر ہے اور مدعی نبوت بعد از آقائے نامدار محمد رسول اﷲﷺ کے قابل قتل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید واحادیث صحیحہ واجماع امت سے یہ امر اظہر من الشمس ہے: ’’لقولہ تعالیٰ: ما کان محمد ابا احمد من رجالکم ولکن رسول اﷲوخاتم النّبیین وکان اﷲ بکل شیء علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {یعنی محمد رسول اﷲﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز کو جاننے والا ہے۔ }
پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں لفظ لکن سے جو کہ استدراک رفع تو اہم کے لئے بولا جاتا ہے۔ لاکر ابوت کی نفی فرما دی ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ تمہارے حقیقی باپ نہیں کہ جس سے حرمت مصاہرت وغیرہ لازم ہو۔ ہاں یہ بات ضروری ہے کہ انبیاء علیہم السلام ازروئے شفقت ومحبت کے باپ ہوا کرتے ہیں جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے کہا: ’’ہئولاء بناتی ہن اطہر لکم‘‘ اور محمد رسو ل اﷲﷺ تو ازراہ شفقت کے تمہارے والدین سے بھی زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔‘‘ اور انہیں کے وجود پر شفقت ومحبت ورسالت ونبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور تمہارے لئے اور کسی نبی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آپ کی ذات پر ہی تمام امور ختم ہوچکے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳) ‘‘ پس اس آیت کریمہ سے کمالیت دین اور اتمام نعمت اور رضا مندی بھی ظاہر ہوگئی اور آپ کی شفقت کا انتہا بھی ظاہر ہوگیا اور ختم نبوت بھی آنحضور ﷺ کی اظہر من الشمس ہوگئی اور علاوہ اس کے آیت کریمہ میں (النّبیین) موجود ہے جو مطلق ہے اور اس پر