کے زمانہ میں یہ امور ہرگز پائے نہیں جاتے۔ پس ناظرین جبکہ مرزا قادیانی میں یہ نشانات مفقود ہیں تو پھر کس لئے امام مہدی وعیسیٰ مسیح علیہ مانا جاسکتا ہے۔ اوریہ علامات مشکوٰۃ شریف وترمذی ونسائی ومشارق الانوار وغیرہ کتب حدیث میں مسطور ہیں۔ ملاحظہ کریں۔
سوال… مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ میرے لئے چاند اور سورج نے شہادت دی ہے۔ چنانچہ سورج وچاند کو مطابق فرمودہ نبیﷺ کے ’’گرہن ماہ رمضان میں لگا۔ پس یہ دلیل میرے امام ہونے کی ہے۔‘‘
جواب… مرزا قادیانی کا یہ کہنا بھی بالکل غلط اوربے اصل ہے۔ وہ دلیل اصل میں یہ ہے: ’’قالا ان لمہدینا اٰیتین لم تکونا منذ خلق السموت والارض تنکسف القمر اوّل لیلۃ من رمضان وتنکسف الشمس فی نصف منہ (سنن دارقطنی ج۲ ص۶۵)‘‘ {یعنی امام باقر محمد بن حسینؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے امام مہدی کے دو نشان ایسے ہیں کہ جب سے آسمان وزمین پیدا ہوئے ہیں۔ کبھی ایسے نشان نہیں ہوئے۔ (یعنی خرق عادت کے طور پر) اول رات رمضان میں چاند کا گرہن ہوگا اور نصف رمضان میں سورج کا۔}
اب ناظرین ومرزائی صاحبان ایمان سے فرمائیں کہ واقعی ایسا ہوا ہے ہرگز نہیں ہوا۔ یہاں پر مرزاقادیانی نے غلط معنی کئے ہیں کہ: ’’اوّل کے معنی ۱۲،۱۳ اور نصف رمضان کے معنی ۲۸،۲۹‘‘ قربان جائیے ایسی سمجھ پر اور ساتھ یہ بھی دھوکہ دے دیا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ حالانکہ نظام حساب قمری کے موافق جبکہ چاند وسورج کا دور ختم ہو کر اجتماع آنے کا ہوگا تو چاند وسورج کو ماہ رمضان میں ضرور گرہن لگے گا اور افسوس کہ اس حدیث کو مرزا قادیانی نے کیوں ترک کردیا: ’’قبل خروج المہدی ینکسف القمر فی شہر رمضان مرتین‘‘
اور علاوہ اس کے مرزا قادیانی نے خود صاف صاف بایں طور پر تحریر کردیا ہے کہ: ’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کی انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی اولاد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کی بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے مل کر مخالفان اسلام سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیالات لغو اور باطل اور جھوٹ ہیں اور ایسے خیالات کے ماننے والے سخت غلطی پر ہیں ایسے مہدی کا وجود ایک فرضی وجود ہے۔ اور جو نادانی اور دھوکہ سے مسلمانوں کے دلوں میں جما ہوا ہے اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے والا نہیں اور ایسی تمام حدیثیں موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں جو غالباً