ایمان والوں پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے ذکر کیا کہ:’’لقد من اﷲ علیٰ المومنین اذا بعث فیہم رسولاً منہم (آل عمران:۱۶۴)‘‘ {اﷲ پاک نے ایمان والوں پر اپنا احسان فرمایا ہے کہ ان میں سے اپنا ایک رسول بھیجا۔} ہمیں تو محمدﷺ دے کر اپنا احسان جتلایا اور محمدﷺ پر احسان یہ کہ بیوی بد اخلاق؟ (العیاذ باﷲ، ثم العیاذ باﷲ) آپ ذرا ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں کہ یہ الزام تراشی کس پر کی جارہی ہے۔ تمہاری دو پیسے والی کتابیں سچی اور خدا کا کلام جھوٹا؟ (استغفر اﷲ)
محمد عربی ﷺ کا نام لینے والو، محمدﷺ کے دیوانے بنو۔ وہ جذبہ پیدا کرو جو نو عمر بچوں کو مجبور کردے کہ میدان کا رزار میں ابو جہل کا نام پوچھتے پھریں اس لئے کہ ابو جہل حضرت محمدﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور یہ چیز ہم اپنی زندگی میں کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔
نبی کی ثابت قدمی
دنیا نے آپ کو پھسلانے کے لئے کئی حربے استعمال کئے اس کی بریت کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’وان کادوا لیفتنونک عن الذی او حینا الیک لتفتری علینا غیرہ واذا لا تخذوک خلیلا (بنی اسرائیل۷۳)‘‘ {قریب تھا کہ کافر آپﷺ کو اس چیز سے جو ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی نازل کی ہے آزمائش میں ڈالیں تاکہ وہ ہم پر اس کے سوائے جھوٹ باندھ کر آپ کو دوست بنا لیں۔ }’’ولولا ان ثبتنک لقد کدت ترکن الیہم شیئاً قلیلا (بنی اسرائیل:۷۴)‘‘ {اور اگر ہم آپﷺ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو قریب تھا کہ آپﷺ تھوڑا سا ان کی طرف جھک جاتے۔} آپ کو اپنی جگہ سے ذرہ بھر بھی ادھر ادھر نہ ہونے دیا۔ یہ ثابت قدم کس نے رکھا؟ آپ کو کس نے پھسلنے اور کفار کے دھوکہ میں آنے سے بچایا۔ یہ اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ آپ حضرات کو معلوم ہے۔
’’ولقد ہمت بہ وہم بہالولا ان رأبرہان ربہ کذالک لنصرف عنہ السوء والفحشاء انہ من عبادنا المخلصین (یوسف:۲۴)‘‘ ایک عورت نے حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بدی کا ارادہ کیا اور آپ بھی بدی کا ارادہ کرلیتے۔ اگر انہوں نے اپنے پروردگار کی نشانیاں نہ دیکھی ہوتیں۔ یہاں بعض لوگ ہم بہا سے ترجمہ یہ کرتے ہیں۔ آپ نے بھی ارادہ کرلیا تھا۔ اب کون سمجھائے قرآن پاک کے اسلوب بیان کو یہاں سرے سے ارادے ہی کا انکار اور ارادے کی نفی ہے۔ کیونکہ انبیاء علیہ السلام تو خطا وعصیاں کے تصورات اور ارادے سے ہی