اختیار کی جارہی ہیں۔ غرضیکہ مسلمانوں کے دماغ کو منتشر کرنے کے لئے دشمن مختلف وسائل اور حربے استعمال کررہا ہے۔ان حالات میں ہمدردان اسلام کا اگر کوئی مفید اقدام ہوسکتا ہے تو صرف یہ کہ انہیں ان کی گزشتہ تاریخ یاددلائی جائے۔ جبکہ اختلاف رائے کے باوجود آپس کا اتحاد واتفاق اپنی نظیر آپ تھا۔
اختلاف رائے نہ کبھی دور ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ مگر اس اختلاف کی بھی اس حد تک اجازت ہے۔ جہاں تک آپس کی محبت میں فرق نہ آئے وہ اختلاف اس قسم کا ہونا چاہئے جیسے ہمارے آئمہ نے بعض مسائل میں اختلاف کیا۔ مگر ان کا اختلاف کسی رنجش، بغض، کینہ، لڑائی فساد پر ہرگز منتج نہ ہوتا تھا۔
اسلام کے سچے شیدائیو! وقت کی نزاکت کو محسوس کرو اور آپس میں اتفاق واتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ یہی ہماری دولت تھی جو ہمیں بانی اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے عطا کی گئی۔ کھرے کھوٹے میں تمیز پیدا کرو۔ دوست اور دشمن میں فرق کرنا سیکھو۔ جو لوگ ہمیشہ اختلاف کے راستے پیدا کرتے نظر آئیں۔ جو لوگ قوم کی حالت پر ترس نہ کھائیں۔ جو لوگ اسلام کے لباس میں افتراق پیدا کرنے سے باز نہ رہیں۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور سمجھ لو کہ وہ دشمن کے آلہ کار ہیں۔ جن کا مقصد مسلمانوںمیں اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
اہل حق کی تعداد کچھ کم نہیں۔ اگر یہی دیندار طبقہ اپنے فرض کا احساس کرے اور مسلمانوں کی اتحاد واتفاق کی تلقین اپنا تبلیغی مشن قرار دے کر اس خدمت میں مصروف ہوجائے تو ہم اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ عبدالکریم مباہلہ
مناظرہ
کارکنان شعبہ تبلیغ احرار اسلام ہند کی سرگرم تبلیغی کوششوں سے مرزائیت کی اشاعت بند ہوچکی ہے۔ اسلام اور مرزائیت کا فرق پبلک پر اتنا نمایاں ہوچکا ہے کہ آج کسی بحث وتمحیص کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ امر اب بالکل صاف ہوچکا ہے کہ مرزائیت ایک فتنہ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھیرنے کے لئے پیدا ہوا اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ خود اس فتنہ سے