قدم رکھا تو اس نے اعلان کیا کہ صداقت اسلام پر میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ جس کے پچاس جزو ہوں گے اور ان پچاس اجزاء کے حساب سے انہوں نے لوگوں سے اس کتاب کی پیشگی وصول کی۔ پھر مرزا غلام احمد نے کتاب کا پہلا جزو براہین احمدیہ حصہ اول کی صورت میں شائع کیا ایک طویل مدت تقریباً ۲۰ سال کے عرصے میں اس نے تین جزو کتاب کے اور چھاپے جو پیشگی قیمت ادا کرنے والوں کو بھیجے اس دوران لوگوں نے اس سے بارہا مطالبہ کیا کہ وہ حسب وعدہ پچاس جزو اس کتاب کے پورے کرے مگر وہ ایسا نہ کرسکا بالآخر مرزا نے براہین احمدیہ کا پانچواں جزو شائع کیا جن لوگوں نے ان سے باربار تقاضا کیا تھا ان سے سخت سست گفتگو کے بعد مرزا غلام احمد نے کہا : ’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔ اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘
(دیباچہ براہین احمدیہ ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)
اے مرزائیو! خدا کے لئے اپنی آخرت اور خوف خدا کو سامنے رکھ کر ذرا انصاف سے یہ بتائو کہ مرزا غلام احمد کا یہ کہنا کہ پانچ اور پچاس میں صرف ایک نقطے کا ہی فرق ہے۔ دیانت وامانت اور صداقت وحق شناسی کے اعتبار سے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کیا نبی اسی سیرت اور کردار کے ہوا کرتے ہیں؟ اور کیا یہ مکارانہ کلام نہیں ہے؟
مرزائی عذر
اگر اللہ تعالیٰ پانچ نمازوں کو پچاس میں شمار کرسکتے ہیں تو مرزا غلام احمد کے لئے کیوں جائز نہیں کہ وہ پانچ کو پچاس قرار دے کر حساب بے باق کردیں؟
ابو المنصور:
۱… پانچ لے کر پچاس ادا کرنا تو دینے والے کی سخاوت ہے اور اس کی عظمت وبرتری کا ثبوت ہے۔ مگر پچاس وصول کرکے جو شخص پانچ پر ٹرخا دے کیا اس کے بارے میں بھی یہی رائے قائم کی جائے گی؟ یا یہ کہ وہ دھوکے سے کام لے رہا ہے اور امانت ودیانت سے محروم ہے؟
۲… دراصل ایسے کا جواب تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان سے پچاس روپے لے کر پانچ ان کے ہاتھ میں تھما دے اور پانچ اور پچاس میں صرف نقطے کا فرق کہہ کر ان کی دکان سے چلتا بنے اور یہ بھی بڑبڑاتا جائے کہ جب خدا نے پانچ نمازوں پر پچاس کے ثواب کا وعدہ کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ میرے پانچ روپے پچاس شمار نہیں کئے جاسکتے؟ مجھے یقین ہے کہ ان قادیانیوں کو اس وقت اپنے اس عذر کا صحیح جواب سمجھ میں آجائے گا۔