نالائق! یہ لو اپنی رقم جس کا مطالبہ تم کئی سال سے کررہے ہو اور تم نے مدت سے پریشان کررکھا ہے اور یہ فرمانے کے بعد وہ صرف پانچ روپے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیں۔ بیٹا عرض کرے ابا جان یہ کیا؟ میں نے تو آپ کو حسب ارشاد ۵۰ روپے دئیے تھے اور آپ صرف پانچ روپے عطا فرما رہے ہیں۔
والد محترم: غصے سے لال پیلے ہوکر فرمائیں: نالائق کہیں کا۔ کیا تجھے اتنا بھی شعور نہیں کہ پانچ اور پچاس میں سوائے نقطہ کے کیا فرق ہے۔ میں نے پچاس لئے تو پانچ ادا کردینے سے پچاس کا حساب صاف ہوا کیا تم نہیں جانتے کہ نقطے کی تو کو ئی حیثیت نہیں ہوتی۔
حضرات! ایمانداری سے بتائیے کہ اس وقت اس سعادت مند بیٹے پر کیا گزری ہوگی۔ مانا کہ باپ کے بارے میں جذبات یہی ہونے چاہئیں کہ ان سے حساب وکتاب کا تقاضا ہی نہ کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حساب ہوا ہے اور لین دین طے پایا ہے تو یہ فلسفہ کہ پانچ روپے ادا کرنے سے پچاس ادا ہوگئے اور وہ بھی اس بناء پر کہ پانچ اور پچاس میں صرف نقطہ کا فرق ہے اور نقطے بے حقیقت محض صفر ہوتے ہیں۔ کیا اسے کوئی شخص باور کرسکتا ہے اور اگر یہ معاملہ باپ بیٹے کے مابین نہیں، گاہگ اور دکاندار، قرض خواہ اور قرض لینے والے اور بینک کے مابین ہوا اور وہاں کوئی شخص یہ فلسفہ بھگارے کہ میں نے لیا تو پانچ ہزار روپیہ قرض تھا مگر ۵ ہزار روپیہ میں بجز دو تین نقطوں کے کیا فرق ہے؟ تو خدارا غور کیجئے ایسے شخص کی دیانت کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے گا اور چاہے وہ ہزار بار دوسروں کو قرض ٹھیک ٹھیک ادا کرچکا ہو اور بہت سے معاملات میں شرافت وصداقت کا مظاہرہ بھی چکا ہو۔
تنہا یہ ایک واقعہ کہ اس نے پانچ ہزاریا صرف پچاس روپے لے کر صرف پانچ روپے ادا کردینے سے حساب بے باک ہونے کا اعلان کردیا اور اس پر اصرار کہ وہ جو کچھ کررہا ہے۔ اسے درست مانا جائے ۔ تو کیا کوئی ہوش مند انسان اسے دیانت دار تسلیم کرلے گا اور اگر یہ شخص امام مسجد ہو۔ کہیں درس قرآن دے رہا ہو۔ کہیں وعظ کررہا ہو تو کون دیانت دار ہوگا جو خود گنہگار ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز ادا کرنا پسند کرے گا اور اس کے وعظ اور اس کی دینی خدمات اور اس کے دینی جذبے سے متاثر ہوگا؟
حضرات سنئے پانچ اور پچاس کی کہانی مرزا قادیانی کی زبانی
اس مذکورہ تقریر کو سامنے رکھئے اور پھر سنئے کہ مرزا قادیانی نے جب تبلیغی میدان میں