تو اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات سے انکار کرنا ایمان سے ہاتھ دھونا ہے۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد نے ایمان سے ہاتھ دھوئے اور کفر کے جال میں پھنسا اور لوگوں کے لئے بھی کفر کا جال بچھایا جیسا کہ اس آیت (۲) سے بھی واضح ہے۔
’’واذ تخلق من الطین کہیئۃ الطیر باذنی فتنفخ فیہا فتکون طیراً باذنی وتبری الاکمہ والابرص باذنی واذتخرج الموتیٰ باذنی واذا کفنت بنی اسرائیل عنک اذا جئتہم بالبینت فقال الذین کفروا منہم ان ہذا الا سحر مبین (۷ ع۵)‘‘ {اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یاد کر جب تو (عیسیٰ علیہ السلام) مٹی سے پرندے کی مانند تصویر میرے حکم سے بناتا اور اس میں پھونک مارتا تھا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا اور میرے حکم سے مادر زاد اندھوں اور سفید داغ والوں کو درست کردیتا تھا اور جب تو میرے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتا تھا اور جب میں نے تجھ سے بنی اسرائیل کو روکا جب تو ان کے پاس روشن نشانیاں (یعنی معجزات) لے کر آیا تو ان میں سے کافر بولے کہ نہیں ہے یہ مگر کھلا جادو۔}
قابل یاد بات یہ ہے کہ اس آیت میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات ذکر فرمائے پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اذا جئتہم‘‘ الآیہ۔ یعنی جب تو ان کے پاس واضح نشانیاں یعنی معجزات لے کر آیا تو کافروں نے معجزات کا انکار کرکے اس کو کھلا جادو کہا تو معلوم ہوا کہ عیسٰی علیہ السلام کے معجزات کو جادو مسمریزم کہنا کافروں کا کام ہے۔ جیسا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا شیوہ ہے۔
حضرات! مضمون طویل ہوتا ہے۔ اس لئے آیت کے ترجمہ پر ہی اکتفاء کرتا ہوں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات تفصیل سے دیکھنے ہوں تو آیات مبارکہ کی تفسیر دیکھیں۔ اس مختصر میں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔
خدا تعالیٰ کی توہین
مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی تسلیم ہے کہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وحی رسالت قیامت تک منقطع ہے جیسا کہ ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۲ پر لکھا ہے۔ ملاحظ ہو عبارت مرزا غلام احمد:’’تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وحی رسالت تابہ قیامت منقطع ہے۔‘‘ لیکن پھر بھی اپنے پر وحی ثابت کرنے کے لئے یہ گستاخانہ اعتراض کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’کوئی عقلمند اس بات
کو قبول نہیں کرسکتا ہے کہ اس زمانہ میں خدا سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں پھر اس کے بعد سوال ہوگا کہ کیوں نہیں بولتا؟ کیا زبان پر کوئی مرض لاحق ہوگیا ہے؟۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۴۵، خزائن ج۲۱ ص۳۱۲)