۔ کہیں زمانہ قبل ازاسلام کے شاعروں کا نمونہ ملاحظہ ہو۔
’’زلزلہ کا دھکا‘‘ ’’عفت الدیار محلہا ومقامہا۰ تتبعہا الرادفہ‘‘ پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔
(حقیقت الوحی ص۹۹، خزائن ج۲۲ ص۱۰۲،۱۰۳)
اوّل آخر اردو عبارت مرزاقادیانی کے ذہن کی اختراع ہے۔ درمیان میں ایک مصرعہ ایک جاہلی شاعر کا کلام ہے اور ایک قرآن پاک کی آیت۔
چہارم یہ کہ مرزاقادیانی اپنے بارے میں یہ الہام نقل کرتے ہیں: ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۳۹، خزائن ج۱۷ ص۳۸۵)
وہ اپنے الہامات کے صرف مضامین ہی نہیں بلکہ الفاظ کو بھی منجانب اﷲ بتاتے ہیں۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان الہامات میں جگہ جگہ زبان کی غلطیاں ہیں۔ نحوی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ادب وانشاء کا فقدان ہے توہم کیا سمجھیں؟ کلام الملوک ملوک الکلام ایک مشہور جملہ ہے۔ اﷲ کا کلام تو فصاحت وبلاغت میں بجائے خود معجزہ ہوتا ہے۔ بندوں سے اس کا مقابلہ ممکن ہی نہیں ہوتا اور یہاں یہ حال ہے کہ فصاحت وبلاغت تو کجا، غلطیوں کی بھرمار ہی اتنی ہے کہ خدا کی پناہ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
اس وقت مرزاقادیانی کی تصنیف (نور الحق حصہ دوم، خزائن ج۸ ص۱۸۷) ہمارے سامنے ہے۔ اس کا ٹائٹل پیج ہم دیکھ رہے ہیں۔ چلئے اسی کو سامنے رکھ کر ہم بات کرتے ہیں۔
۱… ’’تنتا بنی نصر اﷲ‘‘ تنتاب مؤنث کا صیغہ ہے جو غلط ہے۔ نصر مذکر ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ ’’اذا جاء نصر اﷲ‘‘
۲… ’’حصۃ الاولیٰ‘‘ موصوف نکرہ اور صفت معرفہ ہے جو غلط ہے۔ الحصۃ الاولیٰ ہونا چاہئے۔
۳… ’’کتابا مثل ہذا فی نثرہا ونظمہا مع التزام معارفہا حکمہا‘‘ چار مرتبہ ھا ضمیر واحد مؤنث لائی گئی ہے جو غلط ہے۔ کتاب کا لفظ اردو میں مؤنث ہے۔ لیکن عربی میں مذکر ہے۔ اس لئے ضمیر مذکر آنی چاہئے۔