{حدیث شریف کا پورا عام فہم ترجمہ اس طرح پر ہے۔ فرمایا ابن عمرؓ نے کہ میرے والد عمر بن الخطاب نے سعدؓ بن وقاص کی طرف لکھا کہ نضلہ انصاری کو حلوان عراق کی طرف روانہ کرو، تاکہ اس کے گردونواح میں غنیمت کا مال جمع کریں۔ پس روانہ کیا سعدؓ نے نضلہ انصاری کو جماعت مجاہدین کے ساتھ۔ ان لوگوں نے وہاں پہنچ کر بہت مال غنیمت حاصل کیا اور ان سب کو لے کر واپس ہوئے، آفتاب غروب ہونے کے قریب تھا۔ پس نضلہ نے گھبرا کر ان سب کو پہاڑ کے کنارہ ٹھہرایا اور خود کھڑے ہوکر اذان دینی شروع کی۔
جب ’’اﷲ اکبر اﷲ اکبر‘‘ کہا تو پہاڑ کے اندر سے ایک مجیب نے جواب دیا کہ اے نضلہ! تو نے خدا کی بڑی اور بہت بڑائی کی، پھر نضلہ نے ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ‘‘ کہا تو اسی مجیب نے جواب میں کہا کہ اے نضلہ! یہ اخلاص کا کلمہ ہے اور جس وقت نضلہ نے ’’اشہد ان محمد رسول اﷲ‘‘ کہا توا س شخص نے جواب دیا کہ یہ نام پاک اس ذات کا ہے، جس کی بشارت ہم کو عیسیٰ بن مریم نے دی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اس نبی کی امت کے اخیر میں قیامت قائم ہوگی۔
پھر نضلہ نے ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ کہا تو مجیب نے فرمایا کہ خوش خبری ہے اس شخص کے لئے جس نے ہمیشہ نماز ادا کی۔ پھر نضلہ نے جب ’’حی علی الفلاح‘‘ کہا تو مجیب نے جواب دیا کہ جس شخص نے محمدﷺ کی اطاعت کی اس شخص نے نجات پائی۔ پھر جب نضلہ نے ’’اﷲ اکبر اﷲ اکبر‘‘ کہا تو وہی پہلا جواب مجیب نے دیا۔
نضلہ نے ’’لاالٰہ الا اﷲ‘‘ پر اذا ن ختم کی تو مجیب نے فرمایا کہ اے نضلہ! تم نے اخلاص کو پورا کیا۔ تمہارے بدن کو خداوند کریم نے آگ پر حرام کیا۔ جب نضلہ اذان سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے کھڑے ہوکر دریافت کرنا شروع کیا کہ اے صاحب! آپ کون ہیں؟ فرشتہ یا جن یا انسان؟ جیسے اپنی آواز آپ نے ہم کو سنائی ہے، اسی طرح اپنے آپ کو دکھلائیے، اس واسطے کہ ہم خدا اور اس کے رسول اور نائب رسول عمر ابن الخطابؓ کی جماعت ہیں۔ پس پہاڑ پھٹا اور ایک شخص باہر نکل آیا، جس کا سر مبارک بہت بڑا چکی کے برابر تھا اور سر داڑھی کے بال سفید تھے اور ان پر دو صوف کے پرانے کپڑے تھے۔ انہوں نے ’’السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘‘ کہا، ہم نے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ‘‘ جواب میں اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟ فرمایا کہ زریب بن برثملا وصی عیسیٰ بن مریم ہوں۔ مجھ کو عیسیٰ علیہ