’’فاطمۃ سیدۃ نساء اہل الجنہ‘‘
(مشکوٰۃ ج۲ ص۵۶۸، باب مناقب اہل بیت)
پھر بی بی صاحبہ کا پردہ اور حیا اس درجے تک پہنچا ہوا تھا کہ آپ پر کبھی غیرمحرم کی نگاہ نہ پڑی تھی۔ اس دنیا سے رخصت ہوئیں تو حجاب کاعالم تھا کہ ان کی وصیت کے مطابق شب کی تاریکی میں ان کا جنازہ اٹھایا گیا۔ علماء بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے روز بھی جب آپ کا گزر پل صراط پر سے ہوگا تو اہل محشر کو حکم ہوگا کہ اپنی نگاہیں پست کر لیں۔
حضرت حسن اور حضرت حسینؓ جوانان اہل بہشت کے سردار اور سرور دو جہاںﷺ کے لاڈلے شہزادے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے: ’’الحسن والحسین سید اشباب اہل الجنۃ ان الحسن والحسین ہما ریحان من الدنیا‘‘ بعض اوقات آنحضرتﷺ ان دونوں کو اٹھا لیتے اور فرماتے۔ یہ دونوں میرے بیٹے اور میری دختر کے لخت جگر ہیں۔ پھر حضور ان لفظوں میں دعا فرماتے: ’’اللہم انی احبہما فا احبہما واحب من یحبہما‘‘ (مشکوٰۃ ج۲ ص۵۷۰، ترمذی ج۲ ص۲۱۸، باب مناقب حسن وحسین)
اے اﷲ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو شخص (صدق دل سے) ان کے ساتھ محبت رکھتا ہو ان سے بھی محبت رکھ۔
ظاہر ہوا کہ پہلے یک دفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے۔ یعنی جناب پیغمبر خداﷺ، حضرت علیؓ وحسنینؓ وفاطمۃ الزہراؓ اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔‘‘
(براہین احمدیہ حاشیہ ص۵۰۳، خزائن ج۱ ص۵۹۹)
اب فرزندان رسولﷺ کے بارے میں مرزاقادیانی کی گستاخیاں ملاحظہ ہوں۔ اعجاز احمدی میں کہتے ہیں ؎
وقالوا علی الحسنین فضل نفسہ
اقول نعم واﷲ ربی سیظہر
ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ اس شخص (یعنی مرزاقادیانی) نے امام حسن اور حسین سے اپنے تئیں اچھا سمجھا۔ میں کہتا ہوں کہ ہاں اور میرا خدا عنقریب ظاہر کر دے گا۔
(اعجاز احمدی ص۵۲، خزائن ج۱۹ ص۱۶۴)
وشتان ما بینی وبین حسینکم
فانی اؤید وکل اٰن وانصر
اور مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔