استدلال کیا ہے۔ ان کی پوری حقیقت تو انشاء اﷲ تعالیٰ جواب رسالہ میں کھولی جائے گی۔ اس وقت ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ان پانچوں منہاج نبوت میں سے کسی سے بھی یہ ثابت ہوا کہ کسی نبی نے اپنی کسی پیشین گوئی کو اپنی صداقت کا بہت ہی عظیم الشان نشان قرار دیا ہو اور لوگوں کو اس کے پورے ہونے کا انتظار کرنے کو کہا ہو اور پھر کسی وجہ سے وہ پیشین گوئی پوری نہیں ہوئی یا ثابت ہو کہ کسی نبی نے اس طرح پیشین گوئی کی ہو کہ فلاں شخص اتنی مدت میں مر جائے گا اور جب وہ شخص اس مدت میں نہ مرا تو یہ کہا ہو کہ ا سکا میری حیات میں مرنا ضروری ہے۔ اگر میری حیات میں نہ مرے تو میں جھوٹا ہوں۔ ہر ایک بد سے برتر ہوں۔ میں اس کو اپنے صدق وکذب کا معیار مقرر کرتا ہوں۔ میں نے جب تک اپنے رب سے خبر نہیں پائی۔ اس بات کو نہیں کہا۔
’’یقینا سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔ پھر ایسی مؤکد پیش گوئی کو خدائے بزرگ نے کسی وجہ سے پوری نہیں کی ہو۔‘‘ میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ مولوی صاحب نے ۱۶۶ صفحے سیاہ کر ڈالے ہیں۔ مگر اس مضمون کو قرآن مجید اور صحیح حدیث ثابت کرنا تو تقریباً محال ہے۔ کسی بزرگ کے قول سے بھی یہ ثابت نہ کرسکے اور انشاء اﷲ تعالیٰ مولوی صاحب یا ان کی جماعت کے ان سے کوئی بڑے عالم بھی قیامت تک ثابت نہ کرسکیں گے۔ ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا!
اور جب تک اس مضمون کو ثابت نہ کریں گے۔ مرزاقادیانی صادق نہیں سمجھے جاسکتے۔ بلکہ اپنے اقرار سے جھوٹے اور ہر ایک بد سے بدتر کہلانے کے مستحق رہیں گے۔ المریؤخذ باقرارہ۔ ایک مسلمہ قاعدہ ہے۔
ناظرین نے ہمارے مذکور بالا بیانات سے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہوگا کہ مولوی صاحب کا رسالہ بددیانتیوں اور دروغ گوئیوں کا اچھا خاصہ مجموعہ ہے۔ اب میں یہ دکھلاتا ہوں کہ مولوی صاحب فیصلہ آسمانی کی اصل باتوں کا جواب کچھ بھی نہیں دے سکتے اور جو کچھ انہوں نے لکھا ہے۔ غلط اور محض غلط ہے۔ سنئے! اور ذرا توجہ کے ساتھ سنئے!
اس زیر بحث پیشین گوئی میں تین باتیں زیادہ تر قابل توجہ ہیں۔
۱… احمد بیگ کا تاریخ نکا ح سے تین سال کے اندر مرنا۔
۲… داماد احمد بیگ کا تاریخ نکاح سے اڑھائی سال کے اندر مرنا۔
۳… محمدی بیگم کا مرزا قادیانی کے نکاح میں آنا۔