پر روشنی ڈالی جاتی اور راوی کی تنقیح کی جاتی۔ مگر خود بھی ص۵۵ میں ایک حدیث عمدۃ القاری سے اور ایک جمع الجوامع سے نقل کی ہے اور کسی کی سند بیان نہیں کی۔ جس سے راویوں کی تنقیح کی جاتی اور ص ۵۸ میں حضرت مجدد صاحب کے مکتوبات کی جلدا ص۲۲۲،۲۲۳ سے ایک طویل عبارت نقل کی ہے جس میں ایک حدیث بھی ہے۔ اس حدیث کی سند بیان کرنا تو درکنار خود مجدد صاحب نے جو اس حدیث پر ایک سنگین اعتراض کرکے ایک جواب دیا ہے۔ جس سے اس حدیث کا ناقابل احتجاج ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس کو بھی نقل نہیں کیا۔ مجدد صاحب اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وایں فقیر ابن نقل رانمی پسند دو تجویز خطابر جبرائیل امین نمی نماید کہ حامل وحی قطعی اوست۔ وتجویز خطا برحامل وحی نمودن مستقبح می دانہ مگر آنکہ گویم عصمت وامانت وعدم احتمال خطائے او مخصوص بوحی ست کہ تبلیغ است از قبل حق سبحانہ دریں خبر از قسم وحی نیست بلکہ اخبار ست از علمی ومستفاد از لوح محفوظ است کہ محل محو واثبات است پس خطاء را دریں خبر محال پیدا شد بخلاف وحی کہ مجرد تبلیغ است فافترقا بین الشہادۃ والاخبار فان الاول معتبر فی الشرع لا الثانی (مکتوب ۲۲۷ جلد اول۲۲۳)‘‘ {یہ فقیر اس نقل کو پسند نہیں کرتا ہے اور جبرائیل امین پر خطا تجویز نہیں کرتا ہے۔ اس لئے کہ وہ قطعی کا حامل ہے اور حامل وحی پر خطا تجویز کرنے کو برا جانتا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ کہ میں کہوںکہ جبرائیل کی امانت اور ان کا خطا سے محفوظ رہنا وحی کے ساتھ مخصوص ہے جو خدا کی طرف سے تبلیغ ہے۔ اس خبر میں کوئی بات وحی کی قسم سے نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک علم سے اخبار ہوا اور لوح محفوظ سے مستفاد ہے۔ جو محوواثبات کا محل ہے۔ پس اس خبر میں خطا کا موقع نکل آیا۔ بخلاف وحی کے جو کہ محرر تبلیغ ہے۔ پس دونوں میں فرق ظاہر ہوگیا۔ جیسا کہ گواہی اور اخبار میں فرق ہے۔ اس لئے کہ گواہی شریعت میں معتبر ہے اور اخباریں نہیں۔}
علاوہ اس کے نفس حدیث ہی میں بعض مضامین ایسے ہیں جن سے اس حدیث کی حقیقت ظاہر ہورہی ہے۔ مگرقادیانی مولوی نے اس مضمون کو بھی نقل نہیں کیا۔ قادیانی مولوی نے اپنے رسالہ میں جو عبارت نقل کی ہے۔ اس کے بعد ہی مکتوبات میں یہ عبارت ہے:
’’زیر بستر او مار کلانی یا فتند کہ مردہ ودر درون آن مار آنقدر حلوا کو فتہ اند کہ از بسیاری حلواجان دادہ است‘‘