مؤلفوں کو خود بھی اپنے اپنے رسالوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ ورنہ شرائط محض آسان ہیں۔ پابندی نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے اور اگر کسی رسالہ کی نسبت یہ خیال ہے کہ شرائط کے مطابق لکھا گیا ہے۔ تو اس رسالہ پر خلیفہ قادیان نور الدین سے تصدیق لکھ کر ریمارک لکھا نے کے لئے علامہ ممدوح کے پاس بھیج دیں اور پھر یہ تجویز فریقین ثالث مقرر کرکے فیصلہ کرالیں:
بس اک نگاہ پر ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
M
ان دنوں ایک رسالہ مولوی عبدالماجد صاحب پورینوی بھاگلپوری (قادیانی) کا شائع ہوا ہے۔ جس کا نام القاء ربانی بہ تردید فیصلہ ابو احمد رحمانی ہے۔ اہل علم تو اس کے مضامین کی صحت یا غلطی کی کیفیت اس کے نام ہی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہاں سیدھے سادھے مسلمانوں کے اشتباہ اور فتنے میں پڑنے کا احتمال ہے۔ اس لئے بحکم الدین النصیحۃ عام مسلمانوں کی بہی خواہی اور ان کو اس فتنہ سے بچانے کی غرض سے اس رسالہ کی حقیقت ظاہر کردینی ضروری اور بہت ضروری ہے۔ پوری حقیقت تو اس وقت ظاہر ہوگی۔ جب اس کا مفصل اور مدلل جواب شائع ہوگا۔
سر دست بطور مشتے نمونہ از خروارے کچھ بیان کئے دیتا ہوں۔ ناظرین بہ نظر انصاف ملاحظہ فرمائیے:
یہ نہایت ہی حیرت انگیر بات ہے کہ مرزا قادیانی آنجہانی کی یہ عادت رہی اور ان کے متبعین کی بھی یہی عادت ہے۔ کہ اپنے فریق (مخالف) سے جب دلیل کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ آیت قطعی الدلالۃ مرفوع متصل صحیح حدیث پیش کرو اور جب فریق (مخالف) کا جواب دیتے ہیں تو اپنا کوئی دعویٰ ثابت کرتے ہیں تو بحکم الغریق یتشبت بکل حشیش یعنی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ کہیں کوئی ذوی الوجوہ آیت یا ناقابل احتجاج حدیث پیش کردیتے ہیں۔
اور کہیں کسی بزرگ کا قول دکھا دیتے ہیں اگرچہ بلا دلیل ہی ہو۔ بھاگلپوری مولوی قادیانی نے اس رسالہ میں ایسا ہی کیا ہے۔ اب یہ بات قابل سوال ہے کہ جس قسم کی احادیث اور مفسرین یا دیگر بزرگوں کے اقوال سے اس رسالہ میں استدلال کیا گیا ہے۔ ان کے فریق (مخالف) کو بھی اس قسم کی احادیث اور اقوال سے استدلال کرنے کا حق ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو صاف لفظوں میں اقرار کریں اور اگر نہیں ہے تو کیوں۔ اس کی کوئی معقول وجہ بتائیں۔ مولوی (عبدالماجد قادیانی) نے اپنے رسالہ میں جابجا حضرت مجدد الف ثانیؒ کے اقوال پیش کئے ہیں۔