ہوسکتا۔ زیادہ ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اس قدر سن لو کہ مرزائی فیصلہ کیا ہے؟
(ریویو بابت اگست ۱۹۲۶ء ص۶،۷) ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس کو ہسٹیریا، مالیخولیا، مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے پھر کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسی چوٹ جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔‘‘ایں خانہ تمام ذوالمراق است!
(ریویو اگست ۱۹۲۶ء ص۱۱) ’’جب خاندان سے اس کی ابتدا ہوچکی تو پھر اگلی نسل میں بے شک یہ مرض منتقل ہوا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی (میاں محمود احمد ) نے فرمایا کہ مجھ کو بھی کبھی کبھی مراق کا دورہ ہوتا ہے۔ مسئلہ اجرائے نبوت اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘
(اخبار الحکم ۱۰؍اگست ۱۹۰۱ء ص۱۴) ’’مرزا قادیانی کہتے ہیں میری بیوی کو بھی مراق کی بیماری ہے۔ شاید میاں محمود صاحب کی مراقی ہونے کی یہی وجہ ہے۔‘‘
مراقی کی عزت کیا ہے؟
(کتاب البریہ ص۲۵۶، خزائن ج۱۳ ص۲۷۴کے حاشیہ پر) ’’مرزا قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق لکھتے ہیں۔ ’’مگر یہ بات یا تو بالکل جھوٹا منصوبہ یا کسی مراقی عورت کا وہم تھا۔‘‘ یعنی بے اعتبار ہے جب مراقی کی بات قابل اعتبار نہیں تو مرزا قادیانی کے دعاوی کیونکر قابل اعتبار ہوجائیں۔ جبکہ وہ خود اقراری مراقی ہیں۔
منطق کی شکل اول صورت میں یہ قاعدہ ذکر کے دیتا ہوں۔
صغریٰ… مرزا قادیانی مراق، مالیخولیا، جنون، ہسٹیریا میں مبتلا ہیں۔
کبریٰ… اور جوان امراض میں مبتلا ہے وہ نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔
نتیجہ… مرزا قادیانی نبی اور رسول نہیں ہوسکتے۔
اثبات
صغریٰ… مرزا قادیانی نے خود اقرار کیا ہے کہ میں مراق ہسٹیریا میں مبتلا ہوں۔
کبریٰ… تمام اہل اسلام اطباء وبلکہ قادیانی حکیم، ڈاکٹر معترف ہیں کہ ان امراض کا مبتلا نبی نہیں ہوسکتا۔
نتیجہ
خودبخود ظاہر ہے کہ: ’’مرزا قادیانی نبی نہیں ہوسکتے۔‘‘