کا امکان متصور نہیں۔ خدا جانے خدا کی وحی کس وقت آئے لہٰذا ہر وقت ان کی قوت مدرکہ حافظ عاقلہ قبول فیض الٰہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اگر خدا کی وحی آئے اور ادھر مرزا قادیانی کی طرح دورۂ مراق ہسٹریا میں مبتلا ہوگیا تو پھر سب بے کار گیا۔ خدا نے کہا اور بندے نے کیا سنا لوگوں کو بھی خیال ہوگا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے شاید دورہ کی حالت میں کچھ گڑ بڑ ہوگیا۔
مرزائی صاحبان خود اس کے مقر ہیں: ’’اس مرض میں تخیل بڑھ جاتا ہے اور مرگی اور ہسٹیریا والوں کی طرح مریض کو اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رہتا۔‘‘
(رسالہ ریویو اگست۱۹۲۶ء ص۰۶)
اب ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ مرزا قادیانی میں ان اصول کے خلاف تو کوئی بات نہیں پائی جاتی ہے۔
مرزا قادیانی میں مراق کے جلوے
’’ہم کو سخت تعجب آتا ہے اور ہنسی کہ مرزاقادیانی خود اقرار کرتے ہیں کہ مجھ کو مراق ہے۔‘‘
(تشحیذ الاذہان جلد۱ نمبر۲ جون ۱۹۰۶ء ص۵ اخبار بدر قادیان ج۲ نمبر۲۳، ۷؍جون ۱۹۰۶ء میں ص۵) مرزاقادیانی کہتے ہیں:
’’دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرتﷺ نے پیشین گوئی کی تھی۔ جو اس طرح وقوع میں آئی۔ آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دو زرد چادریں اس نے پہنی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھڑ کی۔ یعنی مراق اور کثرت بول۔‘‘
(رسالہ ریویو آف ریلنجز ج۲۴نمبر۴؍اپریل ۱۹۲۵ء ص۴۵) ’’حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجھے مراق کی بیماری ہے۔ ‘‘
(اگست ۲۶ء ص۶) ’’مراق کا مرض حضرت مرزا قادیانی کو موروثی نہ تھا۔ بلکہ یہ خارجی اثرات کے ماتحت پیدا ہوا تھا اور اس کا باعث سخت دماغی محنت تفکرات غم اور سوء ہضم تھا۔ جس کا نتیجہ دماغی ضعف تھا اور جس کا اظہار مراق اور دیگر ضعف کی علامات مثلاً دوران سر کے ذریعہ ہوتا تھا۔ غرضیکہ مرزا قادیانی مرض مراق میں گرفتار تھے۔‘‘
مراق کیا ہے؟
(شرح اسباب ج۱ ص۷۴) ’’ما لیخولیاکی ایک قسم ہے جس کو مراق کہتے ہیں۔‘‘