تاکہ آخر زمانہ میں شیطان کو شکست دے۔ ‘‘ (ملحقہ خطبہ الہامیہ ص ت، خزائن ج۱۶ ص۳۱۲ حاشیہ)
حضرت نوح علیہ السلام پر فضیلت
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۷، خزائن ج۲۲ ص۵۷۵) ’’اور خدا تعالیٰ میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھلا رہا ہے۔ کہ اگر نوح کے زمانہ میں وہ نشان دکھلائے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیقﷺ پر فضیلت
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۸) ’’میں وہی مہدی ہوں جس کی نسبت ابن سیرین سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حضرت ابو بکر کے درجہ پر ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابو بکر تو کیا وہ تو بعض انبیاء سے بہتر ہے۔‘‘
حضرت علیؓ پر فضیلت
’’پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑ دو، اب خلافت لو۔ ایک زندہ علی تم میں موجود ہے۔ اس کو تم چھوڑتے ہو اور مردہ علی کی تلاش کرتے ہو۔‘‘ (ملفوظات مرزاقادیانی ج۱ ص۴۰۰)
حضرت امام حسینؓ پر فضیلت
’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسینؓ کو رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا بلکہ نام تک مذکور نہیں۔ ان سے تو حضرت زیدؓ ہی اچھا رہا جس کا نام قران شریف میں موجود ہے۔ ان کو آنحضرتﷺ کا بیٹا کہنا قرآن شریف کے نص صریح کے خلاف ہے۔ جیسا کہ: ’’ما کان محمد ابا احد من رجالکم‘‘ سے سمجھا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ حضرت امام حسینؓ رجال میں سے تھے، عورتوں میں سے تو نہیں تھے۔ حق تو یہ ہے کہ اس آیت نے اس تعلق کو جو امام حسین کو آنحضرتﷺ کے بوجہ پسر دختر ہونے کے تھا۔ نہایت ہی ناچیز کردیا ہے۔‘‘
(نزول المسیح ص۴۵ تا۴۶، خزائن ج۱۸ ص۴۲۳)
’’اور انہوں نے کہا کہ اس شخص نے (مرزا قادیانی نے) امام حسن اور حسین سے اپنے تئیں افضل سمجھا۔ میں کہتا ہوں کہ بے شک سمجھا۔ ‘‘ (نزول المسیح ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳)
’’اور میں خدا کا کشتہ ہوں لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔‘‘ (اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح ص۸۱، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳)
’’تم نے اس کشتہ حسین سے نجات چاہی کہ جو نو میدی سے مر گیا۔ پس تم کو خدا نے جو