پاکر اس نے زمین پر اپنا قائم مقام اور شبیہ (جسمانی وجود) چاہا جو اس کا ایسا ہم طبع ہو گویا وہی ہو سو اس کو خدائے تعالیٰ کے وعدہ کے موافق ایک شبیہ (جسم) عطا کیا اور اس میں (جسم) مسیح کی ہمت اور سیرت اور روحانیت نازل ہوئی۔ (یعنی مسیح کی روح میرے جسم میں اتر آئی) اور اس میں اور مسیح میں بشدت اتصال کیا گیا۔ گویا وہ ایک ہی گوہر کے دو ٹکڑے بنائے گئے۔‘‘ (ہونا ہی چاہئے جب ایک ہی روح اس جسم میں ہے)
( آئینہ کمالات اسلام ص۳۴۱، خزائن ج۵ ص۳۴۱) میں اس مضمون کے متعلق ہے۔ ’’سو خدا تعالیٰ نے اس کے جوش کے موافق اس کی مثال کو (یعنی جسم کو) دنیا میں بھیجا تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو پہلے کیا گیا تھا۔ ‘‘وعدہ تو یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ اپنی روح پر اور اپنے جسم میں تشریف لائیں گے۔ نہ یہ کہ ان کی روح مرزا قادیانی کے جسم میں بھیجی جائے گی۔
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۴۶، خزائن ج۵ ص ایضاً) ’’میں یوں لکھا ہے اور حقیقت محمدیہ کا حلول ہمیشہ کسی کامل متبع میں ہوکر جلوہ گر ہوتا ہے۔‘‘
(تحفہ قیصر یہ ص۲۱، خزائن ج۱۲ ص۲۷۳) ’’میں وہ شخص ہوں جس کی روح میں بروز کے طور پر یسوع مسیح کی روح سکونت رکھتی ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۸۰،خزائن ج۱۱ ص ایضاً) ’’وگفت مراد سبحانہ کی تو کوئی مسیح دو پیرا یہ بروز‘‘
(ضمیمہ رسالہ جہاد ص۴، خزائن ج۱۷ ص۲۶) ’’سو میں وہی اوتار ہوں جو حضرت مسیح کی روحانی شکل میں اور خو، اور طبیعت پر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۹۹، خزائن ج۱۷ ص۲۵۹) ’’اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا جو اپنی خو اور روحانیت کی رو سے گویا آنحضرت کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا۔ یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا۔‘‘
(نزول المسیح ص۲،۳ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۳۸۱) ’’بلکہ جیسا کہ ابتداء سے سے قرار پاچکا ہے وہ محمدی نبوت کی چادر کو بھی ظلی طور پر اپنے پر لے گا اور اپنی زندگی اسی کے نام پر ظاہر کرے گا اور مرکر بھی اس کی قبر میں جائے گا تاکہ یہ خیال نہ ہوا کہ کوئی علیحدہ وجود ہے اور یا علیحدہ رسول آیا۔‘‘ (یہی صورت تناسخ ہے کیونکہ جب روح کسی کے دوسرے جسم میں آئے گی تو اپنا پہلا نام ہی ظاہر کرے گی اور وہی وجود ہوگا جو پہلے تھا۔) بلکہ بروزی طور پر وہی آیا جو خاتم الانبیاء تھا۔ (یعنی حضور کی روح جسم مرزا میں آئی جب تو مرزا قادیانی خاتم الانبیاء ہوئے)
مگر ظلی طور پر اسی راز کے لئے کہا