کریں۔‘‘ (اخبار پیغام صلح لاہور ۱۱جون ۱۹۳۴ئ)
غرضیکہ نبی کے لئے جس قدر چاہئے تھا وہ سب مرزا قادیانی کے لئے موجود ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کہا جائے کہ مرزا قادیانی نے دعویٰ نبوت نہیں کیا؟ لاہوری پارٹی غور کرے۔
’’اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے؟ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین سے ہے اور کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۴۹،۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۴،۱۵۳)
’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
(اخبار البدر قادیان ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
یہ مرزا قادیانی کی حیات کا آخری اعلان ہے کیونکہ اسی ۱۹۰۸ء ۲۶؍مئی کو موت ہوئی۔
’’انہیں امور کی کثرت کی وجہ سے میرا نام نبی رکھا۔ سو میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے (نبوت) انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے۔ تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں۔ میں اس (دعویٰ نبوت) پر قائم ہوں اس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جائوں۔‘‘ (مکتوب مرزا ایڈیٹر اخبار عام لاہور کے نام مرزا قادیانی نے خط لکھا)
یہ خط مرزا قادیانی نے ۲۳؍مئی ۱۹۰۸ء کو لکھا اور ۳ دن کے بعد ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو انتقال ہوا۔ معلوم ہوا کہ مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام عمر نبی بنتے ہی گزر گیا مگر موت نے فیصلہ کردیا کہ مرزا نبی نہ تھے کیونکہ لاہور میں انتقال ہوا اور قادیان میں دفن۔ حالانکہ نبی کا جہاں انتقال ہوتا ہے وہیں دفن کیا جاتا ہے۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حضور کے دفن کے وقت حدیث پیش فرمائی اور سب صحابہ نے تسلیم کیا۔ (دیکھو مشکوٰۃ شریف باب وفات النبیﷺ)
اس طرح خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا کہ مرزا ہر گز نبی نہیں ورنہ وہیں دفن ہوجانا تھا۔
عقیدہ اسلام متعلقہ ختم نبوت
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین (احزاب)‘‘حضرت محمد مصطفیﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اﷲ کے رسول ہیں اور آخر نبی ہیں۔
حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ