’’مگر حسین، پس تم دشت کربلا کو یاد کر لو۔ اب تک تم روتے ہو۔ پس سوچ لو۔‘‘
’’اور میں خدا کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔‘‘
’’تم نے خدا کے جلال اور مجد کو بھلا دیا اور تمہارا ورد صرف حسین ہے کیا تو انکارکرتا ہے۔‘‘
’’پس یہ اسلام پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری کی خوشبو کے پاس گوہ کا ڈھیر ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۸۱،۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۹۳،۱۹۴)
مرزاقادیانی کی زبان پر غلیظ اور نجس اشیاء کا ذکر اتنی کثرت سے آتا ہے کہ اگر انہیں ’’چرکین اعظم‘‘ کا خطاب دیاجائے تو یقینا موزوں رہے گا۔
حرف آخر
مرزاغلام احمد قادیانی اپنے اﷲ کے دربار میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ جو کچھ کہتے رہے اور جو کچھ کرتے رہے۔ اس کی جواب دہی خود کر رہے ہوں گے۔ ہمارا روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو ان کی پیروکاری میں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ ’’الذین ضل سعیہم فی الحیوٰۃ الدنیا وہم یحسبون انہم یحسنون صنعا‘‘ ان کا کیا کرایا سب دنیا میں ہی ضائع ہو جائے گا۔ حالانکہ وہ خیال کر رہے ہیں کہ وہ ٹھیک کام کر رہے ہیں۔
گذشتہ اوراق سے معلوم ہوچکا ہے کہ مرزاقادیانی کے دعوؤں میں حق وصداقت کا کوئی شائبہ نہیں۔ وہ ابلہ فریبی، عیاری، دروغ گوئی اور دھوکہ بازی کے ذلیل حربوں سے کام لیتے رہے۔ ان کی زبان نہایت غلیظ تھی۔ وہ اخلاقی پستی کا شکار تھے۔ مسیح موعود، مہدی، مجدد یا ملہم من اﷲ ہونا تو درکنار رہا۔ نہ وہ اتنا علم رکھتے تھے کہ انہیں علماء کی صفوں میں جگہ مل سکے۔ نہ ان کا کردار اونچا تھا کہ انہیں ایک روحانی پیشوا تسلیم کیا جاسکے۔ وہ انگریز کے زلہ ربا تھے اور بس۔ انگریز کے سایہ میں ان کا کاروبار چلتا رہا۔ اب نہ وہ سایہ رہا ہے اور نہ سایہ دار۔ مداری اپنا کھیل دکھا کر چلا گیا ہے۔ تم کب تک اس کی شعبدہ بازیوں کے پیچھے کھوئے رہو گے؟ ظلمت شب کا پردہ چاک ہوچکا ہے۔ کیا اب بھی تم نہیں دیکھ سکتے۔ اﷲتعالیٰ نے تمہیں کان دئیے ہیں کہ سنو۔ آنکھیں دی ہیں کہ دیکھو اور دل ودماغ کی دولت سے نوازا ہے کہ تم سوچو سمجھو۔
’’ان السمع والبصر والفواد کل اؤلئک کان عنہ مسئولا‘‘