حالانکہ ساری ذمہ داری محمد بن خالد جندی پر آتی ہے۔ وہ ایک مجہول آدمی ہے۔ اس کا عادل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں یہ حدیث اور بھی کئی طرح پر منقول ہے۔ لیکن ان میں ’’لا المہدی الا عیسیٰ‘‘ کا جملہ نہیں ہے۔ (مصباح الزجاحہ، حاشیہ ابن ماجہ)
جس حدیث کی سند کی علماء نے یوں درگت بنائی ہو۔ کیا وہ بھی اس قابل ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلہ میں اسے کوئی جگہ دی جائے؟ اسی لئے ائمہ دین نے فرمادیا ہے کہ سند بھی دین کا ایک حصہ ہے۔ اگر سند کی پوچھ گچھ نہ ہوتی تو پھر جس کی مرضی میں جو کچھ آتا وہ کہہ دیتا۔ (مسلم)
اسلامی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امت میں جھوٹے دعویداران نبوت پیداہوئے ہیں۔ اسی طرح مہدویت کے جھوٹے مدعی بھی وقتاً فوقتاً پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کتب ذیل میں بعض مدعیان مہدویت کے دلچسپ تذکرے موجود ہیں۔
۱… فتاویٰ حدیثیہ از علامہ ابن حجر مکیؒ ص۳۱۔
۲… مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی، مکتوب نمبر۶۷ حصہ ہفتم دفتر دوم۔
۳… مجمع البحار، علامہ طاہر گجراتی۔
ان سب تذکروں کا نقل کرنا تو مشکل ہے۔ البتہ قارئین کی ضیافت کے لئے علامہ طاہر گجراتی کا ایک بیان نقل کر
زرکشی کہتے ہیں۔ مہدی وہ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔ ان کے پیچھے نماز پڑھے گا۔ دونوں مل کر دجال کو قتل کر یں گے۔ امام مہدی قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ عرب عجم کے بادشاہ ہوں گے۔ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔ ان کی پیدائش مدینہ میں ہوگی۔ ان کی بیعت حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہوگی اور وہ مجبوراً اسے قبول کریں گے۔ وہ سفیانی سے لڑائی کریں گے۔ ہندوستان کے بادشاہ پابجولاں اس کے پیش ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ‘‘
وہ لوگ کس قدر بے حیا، کم عقل، بے دین اور بددیانت ہیں جنہوں نے اپنے دین کو ایک کھلونا اور مذاق سمجھ لیا ہے۔ جس طرح کہ بچے اینٹ روڑے سے کھیلتے ہیں کہ وہ ایک کو امیر