سے باز نہ آئی توقانون قدرت نے اپنا کام کیا۔ طوفان کا عذاب آیا اور آپ کے تمام مخالفین غرق ہوگئے۔
کہ اگر وہ ان امتوں کے وقت نشان دکھلائے جاتے جو پانی اور آگ اور ہوا سے ہلاک ہوگئیں تو وہ ہلاک نہ ہوئیں۔‘‘ (دعوت حق ص۷، حقیقت الوحی ص، خزائن ج۲۲ ص۶۱۹)
سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام
ایک نہایت جلیل القدر نبی ہیں۔ قرآن کریم کی ایک طویل سورت ان کی عظمت شان کو بیان کر رہی ہے۔ حدیث میں ان کے لئے ’’الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم‘‘ کے لفظ آئے ہیں۔ کیونکہ وہ خود نبی۔ ان کے والد نبی، دادا نبی، پردادا نبی ’’صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہم اجمعین‘‘
مرزاقادیانی رقمطراز ہیں۔ ’’اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ عاجز قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچا لیاگیا۔ مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا اور اس امت کے یوسف (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) کی بریت کیلئے پچیس برس پہلے ہی خدا نے آپ گواہی دے دی۔ مگر یوسف بن یعقوب اپنی بریت کیلئے انسانی گواہی کا محتاج ہوا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۹، خزائن ج۲۱ ص ایضاً)
سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام
ایک نہایت بلند پایہ رسول ہیں۔ جنہیں اس دنیا میں اﷲتعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور اسی وجہ سے ان کا لقب کلیم اﷲ ہے۔ ’’وکلم اﷲ موسیٰ تکلیماً (نسائ:۱۶۴)‘‘
مرزاقادیانی کہتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ کی تورات میں یہ پیش گوئی تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو ملک شام میں جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں، پہنچائیں گے مگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۷حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۱۸۲)
سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام
اﷲتعالیٰ کے ان برگزیدہ اور مقرب پیغمبروں میں سے ہیں جن کے واقعات اور حالات قرآن پاک میں بسط سے بیان ہوئے ہیں۔ آپ کا ذکر خیر قرآن کریم کی تیرہ سورتوں میں ۸۴آیات کے اندر پھیلا ہوا ہے۔ نزول قرآن سے پہلے آپ کے بارے میں دو قومیں گمراہی کا شکار تھیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کے پیش نظر ایک منصوبہ تھا وہ یہ کہ انہیں محدث، ملہم اور مجدد کے مقامات سے گذر کر نبوت اور رسالت کے عظیم الشان محل میں داخل ہونا تھا۔ اب یہ دیکھ کر کہ نبوت کے محفوظ قلعہ میں پہنچنے کے لئے سیدھا راستہ تو کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اب اس کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ چلئے صحیح