اپنی امت کو دجال سے ڈرایا اور (سن لو) ’’انااخرالانبیاء وانتم اخرالامم۱؎ ‘‘ {میں سب سے آخری نبی ہوں ، تم آخری امت ہو(میرے بعد کسی نبی نے نہیں آنا کہ وہ کچھ بتاسکے اس لئے میری بات ذہن نشین کر لو)وہ تم میں ضرور آکر رہے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،باب فتنہ الدجال ص۳۰۷)
دجالی فتنے کی اسی اہمیت کے مدنظر رسول کریمﷺ وقتاً فوقتاً صحابہ کرامؓ کے سامنے اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سن کر حیران ہوںگے کہ تقریباً چالیس۲؎ کبار صحابہ ؓ وہ ہیں جن کے اسماء خروج دجال کے رواۃ ہونے کی حیثیت سے مشہور کتب حدیث صحاح ستہ سے پیش کئے جاسکتے ہیں۔حدیث کی دوسری کتابیں اس کے علاوہ ہیں۔ اب سوچنے کے لائق بات یہ ہے کہ جو فتنہ نگاہ رسالت میں اس درجہ اہم تھا اورصحابہؓ کی ایک بڑی جماعت اس کی جزوی تفصیلات کو نقل کررہی ہے۔کیا ان تفصیلات کونظرانداز کرکے ہم ان کے بارے میں کوئی صحیح اور دیانت دارانہ رائے قائم کرسکتے ہیں؟قطعا نہیں۔
دجال کون ہے؟وہ کن فتنہ سامانیوں کے ساتھ نکلے گا؟ـ کہاں سے نکلے گا؟ کیونکر مخلوق خدا کو گمراہ کرے گا اورانجام کار وہ کس طرح کیفر کردار کو پہنچے گا؟ اگر ان سوالوں کے جوابات احادیث کی روشنی میں دیکھے جائیں تو معاملے کی نوعیت اس سے بالکل مختلف معلوم ہوتی ہے جو مرزا قادیانی پیش کرتے ہیں اور مرزا قادیانی کی تعمیر کردہ خیالی عمارت دھڑام سے نیچے آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر سنیے:
۱؎ ذرا ان الفاظ پر غور کیجئے۔ آنحضورﷺ کتنی ہی شفقت اورمحبت کے انداز میں اپنے آخری نبی ہونے کااعلان کررہے ہیں۔جو لوگ اس حدیث میں (آخر)کامعنی (افضل) کرتے ہیں وہ کتنے جاہل یابددیانت ہیں؟اﷲ انہیں ہدایت دے۔
۲؎ ابوبکرصدیقؓ، عمر بن خطابؓ، عبداﷲ بن مسعودؓ، عبداﷲ بن عمرؓ عبداﷲ بن عباسؓ، عائشہ صدیقہؓ، عبداﷲ بن عمروؓ، ابوہریرہؓ، انسؓ، جابرؓ،حذیفہ بن یمانؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، ابوعبیدہ بن جراحؓ، عمرو بن عوفؓ، ابوسعید خدریؓ، نواس بن سمعانؓ، حذیفہ بن اسیدؓ، نافع بن عتبہؓ، ام شریکؓ، عمران بن حصینؓ، فاطمہ بن قیسؓ، معاذ بن جبلؓ، عبداﷲ بن بسرؓ،عبداﷲ بن مغفلؓ، مجعؓ، صعب بن جثامہؓ، ابوبکرہؓ،اسمائؓ، فلتان بن عاصمؓ، محجن ثقفیؓ، اسامہ بن زیدؓ، سمرہ بن جندبؓ، ابوبرزہ اسلمیؓ، کیسان ؓ، عثمان بن ابی العاصؓ، ابوامامہ باہلیؓ، عبادہ بن صامتؓ،ابودردائؓ، سعد بن ابی وقاصؓ۔