’’مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت مفید اورمتبرک کتاب ہے۔یہ وہی کتاب ہے جس میں صاف طورپر لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے۔‘‘
(کشتی نوح ص۶۰،خزائن ج۱۹ص۶۵)
اچھا؟صاف طور پرلکھا ہے؟تو پھر آپ کو استعارات اورتمثیلات کا سہارا لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اوریہ صاف لکھا ہوا آپ کی نظر سے کب گزرا؟ جب آپ کومعلوم تھا کہ حدیثوں میں صاف لکھا ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے اوراب مسیح موعود اسی امت میں سے آئے گاتو پھر کیاوجہ ہے کہ ایک عرصے تک آپ مسلمانوں کے مشہور عقیدہ کے قائل رہے؟
۱۱… ’’اسی طرح سورئہ تحریم میں اشارہ ہے کہ بعض افراد امت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے۔ ‘‘ (کشتی نوح ص۴۵،خزائن ج۱۹ص۴۸)
’’اسی واقعہ کو سورئہ تحریم میں بطور پیشگوئی کمال تصریح سے بیان کیاگیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم اس امت میں اس طرح پیدا ہوگا کہ پہلے کوئی فرد اس امت کا مریم بنایا جائے گا اورپھر بعد اس کے اس مریم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی جائے گی۔‘‘ (کشتی نوح ص۴۵،خزائن ج۱۹ص۴۹)
کتنی بے تکی اورغیر معقول بات ہے جو اﷲ کی طرف منسوب کی جارہی ہے؟ پھر طرفہ تماشا یہ کہ کہیں تو اسے ’’اشارہ‘‘ قراردیاجارہا ہے اورکہیں ’’کمال تصریح‘‘۔ کیا سورئہ تحریم میں اس قسم کا کوئی اشارہ بھی موجود ہے۔چہ جائیکہ کمال تصریح؟
۱۲… ’’چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعودکاآنا جس قدر حدیثوں سے، قرآن سے، اولیاء کے مکاشفات سے بپایہ ثبوت پہنچتا ہے،حاجت بیان نہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۷۰،خزائن ج۶ ص۳۶۵)
قرآن وحدیث میں کہاں لکھا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر آئے گا؟ مرزا قادیانی نے حد کر دی ہے۔ ان کی یہ جرأت حیرت انگیز بھی ہے
مرزاقادیانی پہلے مریم پھر ابن مریم کیسے بنے؟ اس سوال کا جواب ہم مرزا قادیانی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مرزا قادیانی کا یہ بیان کتنا مضحکہ