محدثین کے سردار ہیں کہ حضورﷺ نے انہیں محدث اورملہم قرار دیا۔ لیکن کہیں بھی منقول نہیں کہ جناب فاروقؓ نے لوگوں کو اپنے اس مقام بلند پر ایمان لانے کی دعوت دی ہو۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ۲۶ لاکھ مربع میل کا رقبہ ان کے زیرنگیں تھا اور ان کے رعب خلافت سے قیصر وکسریٰ لرزہ براندام تھے۔
علی ہذا مہدی آخرالزمان کی آمد کا مسئلہ ہے۔ان کے بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف روایت ایسی نہیں ملتی کہ وہ اپنی مہدویت کا دعویٰ کر کے لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دیں گے اور جو نہ مانے گا اسے وہ اسلام سے خارج ٹھہرائیں گے۔
باقی رہا مسئلہ مسیح موعود کا، تو جہاں تک ہم نے اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کی آمد پراہل اسلام خود بخود انہیں پہچان لیں گے۔نصاریٰ منہ کی کھائیں گے۔ وہ اپنے مزعومہ باطل عقیدوں کو چھوڑ کر اسلام کو قبول کرلیںگے۔جب دجال قتل ہوجائے گا تو یہود بھی اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے۔اس وقت ایک ہی ملت رہ جائے گی اور یوں حضرت مسیح کی آمد کا مقصد تکمیل کوپہنچے گا۔ اس کے برخلاف ہم مرزا قادیانی کی سوانح حیات پرغور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی آمد پر یہود ونصاریٰ کا اسلام لے آنا تو بجائے خود ماند، یہاں تو مسلمان کافر ہوئے جارہے ہیں مرزاقادیانی مسیحیت کا دعویٰ کر کے اس پر ایمان لے آنے کی دعوت دیتے ہیں اور جو ایمان نہ لائے اسے وہ کافر ٹھہراتے ہیں(حوالہ آگے آرہاہے) اسلامی لٹریچر کچھ کہتا ہے مرزا قادیانی کوئی اورراگ الاپتے ہیں۔ کیا قصہ ہے؟
من چہ مے سرایم وطنبورئہ من چہ مے سراید
پھر ذہن میں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا دعویٰ جس کے نتائج بعد میں اس حد تک سنگین اورخطرناک شکل میں رونما ہو سکتے تھے کہ کفر و اسلام کے نام پر دو گروہ بن سکتے تھے۔ اس کے متعلق نہ اﷲ نے اپنی آخری کتاب میں وضاحت سے فرمایا نہ اﷲ کے رسولؐ نے واشگاف لفظوں میں امت کی راہ نمائی فرمادی۔ کیا انبیاء علیہم السلام کا یہی کام ہے کہ وہ امتوں کو بھول بھلیاں میں چھوڑ کر چلے جائیں۔ بالخصوص سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ جو امت کے بارے میں نہایت رؤف ورحیم تھے،کیا آپﷺ کی رافت ورحمت اس بات کو گوارہ کر سکتی ہے کہ آپؐ استعارات وکنایات کی زبان بول کر امت کو امتحان میں ڈال دیں۔ لوگوں کے ایمان استعاروں کی نذر ہوجائیں اور نبوت تماشا دیکھتی رہے؟حاشاوکلا!