حضرت مرزاقادیانی کو دعویٰ ہے یعنی مسیحیت ،جب تک اس کی کرسی خالی نہ ہو حضرت مرزا قادیانی کی سچائی کے متعلق دل اطمینان نہیں پکڑ سکتا۔لہٰذاضروری ہے کہ سب سے پہلے اس روک کو دور کیا جائے۔‘‘ (الحجۃ البالغہ ص۲)
اس اقتباس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قادیانی مشن کے لئے سدراہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ مرزاقادیانی اوران کے پیروکار اس کو ہٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ مرزاقادیانی کی تصنیفات کا کم وبیش چالیس فیصد اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہنوز جسمانی حیات کے ساتھ زندہ ہیں اور وہی آنحضرتﷺ کی پیش گوئی کے مطابق دوبارہ دنیا میں تشریف لے آئیں گے۔ اس موضوع پر علماء اسلام کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ ہمارے پیش نظر اس وقت حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت کرنا نہیں ہے ۔بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بالفرض و التقدیر اگر واقعی حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہوں اور ’’مسیح منتظر‘‘ کی کرسی خالی ہو تب بھی مرزا قادیانی اس پربیٹھنے کے حق دار نہیں ہیں۔ وہ لاکھ جتن کریں مگر اس منصب کے لئے فٹ نہیں ہیں۔
ایک لمحہ فکریہ
اس جگہ ایک نکتے کی طرف توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ مرزا قادیانی بیک وقت اپنے لئے چار مناصب کے مدعی ہیں:مسیح موعود، مہدی، محدث اور مجدد۔ کیا ان میں سے کوئی منصب ایسا بھی ہے جو امت مسلمہ میں کفر واسلام کے نام پر تفریق کا موجب ہو سکے؟ ہمارے نزدیک جواب نفی میں ہے۔آخری دو یعنی محدث اورمجدد تو کوئی ایسے منصب بھی نہیں ہیں جن کے بارے میں باضابطہ دعویٰ کیا جاسکے اورامت کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ دیکھئے علماء کرام نے ابتدائی صدیوں کے مجددین میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اورامام شافعیؒ کے نام گنوائے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے دعوے کر کے اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کی۔
اغلب بلکہ یقین ہے کہ زندگی بھر ان حضرات کے دل میں یہ خیال نہ گزرا ہو گا کہ وہ مجدد ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں علماء امت نے ان کے کارناموں کے پیش نظر انہیں مجدد قرار دیا اور پھر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اگر ایک آدمی خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ یا امام شافعیؒ کو مجدد نہیں مانتا تووہ دائرئہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ اسی طرح پوری امت محمدیہ میں حضرت عمر فاروقؓ محدثین