(حقیقت الوحی ص۱۰۴، خزائن ج۲۲ ص۱۰۷)
اور ظاہر ہے کہ افطار کے لئے ماکولات ومشروبات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
(۳)خداتعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ ’’لم یلد ولم یولد (اخلاص)‘‘
(ب) ’’انی یکون لہ ولد ولم تکن لہ صاحبۃ (انعام:۱۰۱)‘‘ اس کی اولاد کیونکر ہوسکتی ہے جب کہ اس کی بیوی کوئی نہیں۔
(الف)مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے مجھے الہام فرمایا ہے کہ ’’تو مجھ سے بمنزلہ میرے فرزند کے ہے۔‘‘
’’انت منی بمنزلہ ولدی۱؎‘‘
(حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹)
(ب)مرزاقادیانی ایک الہام خدتعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں: ’’انت من ماء نا وہم من فشل۲؎‘‘ اس کا ترجمہ وہ خود ہی کرتے ہیں: ’’تو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ فشل سے۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۳۴، خزائن ج۱۷ ص۴۲۳)
(ج)مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’انت منی وانامنک‘‘ تو مجھ سے ظاہر ہوا اور میں تجھ سے۔
(حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷)
۱؎ ولدی کا مرکب اضافی قابل غور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی اولاد ہے اور جو حیثیت اس کے نزدیک اس کی اولاد کو حاصل ہے۔ وہی مقام مرزاقادیانی کو بھی حاصل ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ‘‘ اگر مرزاقادیانی کے ذہن میں ’’ولدیت‘‘ کا تصور نہیں تھا اور وہ عربی زبان سے بخوبی واقف ہوتے تو الہام کے الفاظ یوں تصنیف فرماتے۔ ’’انت منی بمنزلۃ الولد من والدہ‘‘ اب تین باتوں میں سے ایک کا اعتراف کرنا پڑے گا یا تو مرزاقادیانی عقیدہ ولدیت کے قائل ہیں یا ان کا الہام منجانب اﷲ نہیں ہے۔ بلکہ محض ایجاد بندہ ہے۔ یا خدا کو عربی زبان نہیں آتی۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)