و… ۲۰۰۳ء میں امریکہ اور برطانیہ کا جو مشترکہ حملہ عراق پر ہوا ہے۔ تو امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم نے پھر صلیبی جنگ کا نعرہ دہرایا۔
تو سوال یہ ہے کہ ایک آدمی ہوش کے ناخن لے کر بات کرے۔ ایک صدی قبل مسیح موعود ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہ واقعات اس کی تائید کرتے ہیں یا تردید؟
کیا صلیب ٹوٹ گئی ہے؟ کیا دجال (انگریز) قتل ہوگیا ہے؟ کیا خنزیر صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے؟ سوچئے اور بار بار سوچئے۔
’’ان فی ذالک لذکریٰ لمن کان لہ قلب او القی السمع وہو شہید (ق:۳۷)‘‘{بے شک اس میں، اس آدمی کے لئے نصیحت کا سامان ہے جو سوچنے والا دل رکھتا ہو یا پوری توجہ سے کان لگا کر بات سن لے۔}
نوٹ:ہم نے اپنے مقالہ میں مولانا محمد اسحاق سندیلوی کی کتاب ’’دینی نفسیات‘‘ کے جدید ایڈیشن سے کچھ اقتباسات نقل کرکے ان کی تردید کی ہے۔ مولانا کی سابقہ تصانیف کے مد نظر ہم نے بھی باور نہیں کیا تھا کہ کتاب کے حصہ سوم کا باب چہارم ان کے قلم سے نکلا ہے۔ چنانچہ دو تین جگہ ہم نے اس تردد اور تامل کا اظہار کیا ہے۔
ماہنامہ ’’بینات‘‘ کراچی، اشاعت ماہ ربیع الثانی ۱۴۲۴ھ میں حضرت مولانا سعید احمد صاحب جلال پوری زید مجدہم کا ایک مضمون اس سلسلہ میں آیا ہے۔ جس میں انہوں نے بڑے شد ومد سے اس بات کی تردید کی ہے کہ کتاب مذکور کے جدید ایڈیشن کے حصہ سوم باب چہارم میں جو مضمون نزول سیدنا مسیح علیہ السلام کے عنوان سے طبع ہوا ہے۔ یہ مولانا مرحوم کا ہے۔ جزاھم اﷲ خیر الجزائ!
ہمیں پہلے بھی ایک حد تک یقین تھا کہ مولانا مرحوم، اس ملحدانہ نظریہ (انکار نزول سیدنا مسیح علیہ السلام) سے بری ہیں، اور اب حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری کے تحقیقی مقالہ سے ہماری تائید وتوثیق ہوگئی ہے۔
اگر واقعی مضمون کی نسبت مولانا مرحوم کی طرف افتراء اور بددیانتی پر مبنی ہے۔ تو ہم مولانا مرحوم کی روح سے معذرت خواہ ہیں۔ بہر حال یہ مضمون جس کا بھی ہو۔ نہایت ہی بودا، پھسپھسا اور لغو ہے۔ اس سے گمراہ کن نتائج کا اندیشہ تھا۔ ہم نے اپنی بساط کی حد تک ان کی پیش بندی کی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری اس سعی کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
وصلی اﷲ تعالیٰ علی حبیبہ سیدنا محمد وعلیٰ آٰلہ وصحبہ اجمعین!