…معبود باطل کی حیثیت
پانزدہم… ’’والذین یدعون من دون اﷲ لا یخلقون شیئاً وہم یخلقون اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون (نحل:۲۰،۲۱)‘‘ یعنی جو لوگ من دون اﷲ کو پکارتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے معبود ان باطلہ خالق نہیں ہیں۔ ہاں مخلوق ضرور ہیں اور مردے ہیں زندہ نہیں ہیں اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام عیسائیوں کے معبود ہیں۔ اس لئے ماننا پڑا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں۔ الغرض حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی حیثیت لے لی جائے۔ ہر حیثیت سے ان کی وفات ازروئے قرآن مجید ثابت ہے۔
شانزدہم… ’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبیین (آل عمران:۸۱)‘‘ اس آیت کے نیچے عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے تمام نبیوں سے یہ وعدہ لیا تھا کہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر ایمان لانا اور آپﷺ کی مدد کرنا ان کا فرض ہے اور سب نبیوں نے یہ پختہ وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ اﷲتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اگر کوئی اپنے اس وعدے سے پھر جائے گا تو وہ فاسق ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت رسول مقبولﷺ کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپﷺ پر ایمان لائے اور آپﷺ کی مدد کی؟ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ آپﷺ فوت ہوچکے ہیں۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ آپﷺ نے جیتے جی وعدہ خلافی کی۔
حضرت شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے اپنی تفسیر ’’موضح القرآن‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ اس آیت کی رو سے تمام نبیوں کے لئے ضروری تھا کہ اگر ان کی زندگی میں آنحضرتﷺ مبعوث ہوں تو وہ خود ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔ ورنہ اپنی امت کو تاکید کر دیں کہ وہ ایمان لائیں اور مدد کریں۔ لیکن چونکہ حضور انورﷺ کی بعثت تک کوئی نبی بھی زندہ نہ رہا۔ اس لئے آپﷺ پر ایمان لانا اور آپﷺ کی مدد کرنا ان کے لئے ممکن نہ ہوا۔
اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آنحضرتﷺ پر ایمان نہ لاسکے اور نہ آپﷺ کی مدد کر سکے۔ البتہ دوسرے حصہ پر انہوں نے ضرور عمل کیا۔ جو ان کے لئے ممکن تھا۔ یعنی بعثت نبویؐ کی بشارت دی اور اپنی امت کو آپﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کی مدد کرنے کی تاکید کی۔