ہے کہ: ’’کل نفس ذائقۃ الموت (آل عمران۱۸۵)‘‘ اور یہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انسان جو آج سے قریباً دوہزار سال قبل پیدا ہوا تھا۔ اس کی وفات ثابت کرنے کے لئے ہمیں آج بحث کی ضرورت پیش آئی ہے۔ چنانچہ آج اسی مسئلے پر گفتگو ہوگی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہمارے مسلمان بھائیوں کو سمجھ عطا فرما کہ وہ افضل الانبیاء حضرت محمد رسول اﷲﷺ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فضیلت دینا چھوڑ دیں۔ کیونکہ ؎
غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پرمدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا
حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوے کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہے۔ اب دیکھو یہ بنیاد کس قدر مضبوط اور محکم ہے۔ جس کی صحت پر قرآن شریف گواہی دے رہا ہے۔ حدیث رسول اﷲﷺ گواہی دے رہی ہے اور آئمہ اسلام گواہی دے رہے ہیں اور ان سب کے بعد عقل بھی گواہی دیتی ہے۔‘‘ (ایام الصلح ص۳۹، خزائن ج۱۴ ص۲۶۹)
ان چند الفاظ کے بعد اب ہم وفات مسیح ناصری علیہ السلام کے دلائل درج ذیل کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چار مختلف حیثیتیں قابل غور ہیں۔ (۱)ذات خاص۔ (۲)عام انسان۔ (۳)نبی اﷲ۔ (۴)معبود باطل۔
۱…ذات خاص
اوّل: ذات خاص کے اعتبار سے سورۂ مائدہ کے آخری رکوع کی آیت ’’فلما توفیتنی‘‘ پیش کی جاتی ہے۔ اس کا ماحصل یہ ہے کہ قیامت کے دن تثلیث پرستوں پر حجت ملزم قائم کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اﷲتعالیٰ پوچھے گا کہ آیا تو نے ان کو کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا مانو۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح علیہ السلام کہیں گے سبحانک، یعنی میں توتیرا رسول تھا۔ جس کا کام صرف یہ تھا کہ بھیجنے والے کا پیغام پہنچا دوں اور ظاہر ہے کہ تو نے مجھے یہ پیغام دے کر نہیں بھیجا تھا۔ البتہ اگر یہ سوال ہو کہ میں نے ازخود انہیں یہ تعلیم دی ہوگی تو: ’’ما یکون لی ان اقول مالیس لی بحق (مائدہ:۱۱۶)‘‘ یعنی مجھے ازخود ایسا کہنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس لئے میں نے ازخود ان کو یہ پیغام نہیں دیا اور اگر یہ سوال ہوکہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے میرے کلام سے کسی غلط فہمی کی بناء پر یہ سمجھا ہوکہ گویا میں اپنی اور اپنی ماں کی خدائی کا پرچار کر رہا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’ماقلت لہم الا ما امرتنی بہ ان اعبدوا اﷲ ربی وربکم (مائدہ:۱۱۷)‘‘ کہ میں نے اپنے پاس سے ان کو کوئی پیغام دیا ہی نہیں۔