بہ وساطت رسول کریم (الانعام:۱۳۷) خداوند کریم نے تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جس محفل میں خدا کے کلام کا استہزاء کیاجارہا ہو۔ تم اس محفل سے اٹھ جاؤ۔ (النسائ:۲۰) اس نے صرف سرور جہاںہی کو قرآن میں مخاطب نہیں کیا۔ بلکہ تمام نسل انسانی کو مخاطب کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشن کالج کے پرنسپل نے اسلامیہ کالج کے ہال میں کہا۔ تم اس نبی آخرالزمان حضرت رحمتہ اللعالمین کی توہین کے مرتکب ہورہے ہو۔ جو تم کہتے ہو کہ ہمارے پیغمبر نے کہا یا پیغمبر اسلام نے کہا۔
دیکھو وہ عیسائی ہوکر کہتا ہے کہ تم اس عمل میں حضورﷺ کی توہین کر رہے ہو۔ وہ صرف اہل اسلام کا نہیں بلکہ ہندو، یہودی اور نصرانی اور تمام نسل انسانی کا پیغمبر ہے۔ مقصود تو یہ ہے کہ نجات حضورﷺ کی پیش کردہ کتاب کی اتباع سے وابستہ ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم‘‘ کی آیت کیوں نازل ہوئی۔ وہ یوم اس وقت ختم ہوا جب رحمتۃ اللعالمین کی وفات کی گھڑی قریب آئی ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
اب کسی نبی کے آنے کی ضرورت نہیں
اس کی نبوت کا یوم بہترین یوم تھا۔ کیونکہ بہترین نصب العین وقت ہوتا، یعنی پانچ سو۔ دوہزار یا پانچ ہزار سال کے لئے ہوتا تو اس کے ہمیشہ کے لئے محفوظ رہنے کے دعوے کئے جاتے۔ قرآن نے ہر چیز کو فطرت انسانی کے مطابق پیش کیا۔ قرآن کی موجودگی میں کسی اور نصب العین کی ضرورت نہ تھی۔ پھر کسی نبی کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی۔ پھر نبی کس لئے آئے گا۔ کیونکہ قرآن کریم کی حفاظت کے لئے تو نہیں آئے گا۔ آواز بلند کی جاتی ہے کہ نبی قوت قدسیہ کے ذریعہ لوگوں کے اخلاق سنوارتا ہے۔ وہ قوت قدسیہ کیا ہے۔ وہ قرآن کریم کے نور سے پیدا ہوتی ہے۔ پیٹنٹ دواؤں پر غور کرو۔ بعض گولیاں بچوں کو جلاب دینے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ بعض دوائیں کسی خاص بیماری کے لئے تریاق ہوتی ہیں۔ کیا ان دواؤں میں ڈاکٹر کے کہنے سے اثر پیدا ہوتا ہے۔ کیا قرآن کریم کا اثر کسی شخصیت کے بنانے کے تابع ہے؟ عوام کہتے ہیں کہ قرآن میں اثر وبرکت نہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ بیسوں دواؤں کو تو کوئی یونانی دوا فروش بھی اپنے مطب میں نہیں رکھتا۔ باہر پھینک دیتا ہے۔ پھر کیوں خدا نے اسے محفوظ رکھنے کا ذمہ اٹھایا ہے۔ وہ اثر رکھتا ہے۔ لیکن تم نے اسے لکڑی اور لوہے کی الماریوں کی زینت بنارکھا ہے۔ جب تک یہ چیز تمہارے دل ودماغ میں تھی دنیا تمہاری عزت کرتی تھی۔ لیکن جب دل سے نکل گئی تو تمہارے لئے ذلت کا باعث ہوئی۔