دباتی ہوں۔ اتنے میں آپ کو ایک اور دست آیا۔مگر اب اس قدر ضعف تھا کہ آپ پاخانہ نہ جاسکتے تھے۔ اس لئے چارپائی کے پاس بیٹھ کر آپ فارغ ہوئے۔ (سچا نبی جہاں مرتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے، مقولہ مرزاقادیانی) اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو اتنا ضعف تھا کہ آپ پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔ اس پر میں نے گھبرا کر کہا۔ اﷲ یہ کیا ہونے لگا ہے۔ تو اس پر آپ نے کہا وہی جو میں (مولوی ثناء اﷲ کے لئے) کہا کرتا تھا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۱، روایت نمبر۱۲)
پانچ پاخانے ایک قے۔ قصہ ختم! ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘ یہ حال انہی مرزاقادیانی کا ہے جو اپنی چند روزہ زندگی میں زمین آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ کبھی خدا بنتے تھے اور کبھی خدا کے باپ۔ کبھی زمین وآسمان بناتے تھے تو کبھی مسل لے کر دنیا بھر کی تقدیر پر دستخط کرالاتے تھے۔ مگر اپنی تقدیر سے بے خبر تھے۔ جس کا فیصلہ ان کی آخری وحی نے کر دیا۔ مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار!
چند روزہ عیش وعشرت کے لئے آخرت کو چھوڑنا، رسالت ونبوت کا دعویٰ کرنا، عیسائیوں کی خوشامد میں پچاس الماریاں کتابیں لکھنی اور اس اہم کام میں عمر کا اکثر حصہ خرچ کرنا اور اپنی دجالی تصانیف اور مکاری اور رنگین بیانی سے بھولے بھالے مسلمانوں کو مرتد بنانا، علماء کرام اور صوفیائے عظام کے سب وشتم سے اپنی کتابوں کو سیاہ کرنا اور دنیا بھر کے لوگوں کو موت اور ہیضہ اور طاعون کی دھمکی دے کر خود بجائے مکہ یا مدینہ میں مرنے کے مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری سے ہیضہ کا مباہلہ کر کے خود ہی دست وقے یعنی ہیضہ کی بیماری سے ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیش گوئی کے مطابق لاہور میں ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو یہ کہتا ہوا رخصت ہوا کہ ؎
مباش ایمن ازبازیٔ روزگار
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
(تذکرہ ص۷۵۴تا۷۵۶)
کیا اب بھی کوئی حق کا تلاش کرنے والا قادیانی باقی نہیں ہے۔ جو مرزاقادیانی کے دعوے کو اوّل سے آخر تک پڑھے اور ان کے کارناموں پر اور ان کے حسرت ناک انجام پر ٹھنڈے دل سے غور کرے اور یہ نہ کہے کہ ؎
نبیٔ قادیانی کی رسالت
جہالت ہے بطالت ہے حماقت