لکھ آئے ہیں۔ ان کی دائمی عذاب ان کی کفر کی دائمی نیت کی بناء پر دیا جارہا ہے۔ اس لئے جب ان کو اتنی طویل عمر عطاء کی اور وہ ایمان نہ لائے تو اگر اس سے بھی زیادہ عمر دی جاتی تو بھی یہ ایمان نہ لاتے۔ اسی لئے کفار جب جہنم میں پکار پکار کر کہیں گے۔
’’ربنا اخرجنا منہا فان عدنا فانا ظالمون (مؤمنون:۱۰۷)‘‘ {اے ہمارے پروردگار تو ہم کو نکال اس سے پس اگر ہم دوبارہ لوٹے تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔}
اﷲتعالیٰ جواب میں ارشاد فرمائیں گے۔
’’قال اخسئوا فیہا ولا تکلمون‘‘ کہا تم پڑے رہو ذلت کے ساتھ اسی جہنم میں اور تم مجھ سے بات نہ کرو۔ اہل جہنم کے ساتھ اﷲتعالیٰ کے یہ سوال وجواب بتارہے ہیں کہ یہ لوگ خدا کی رحمت کے قطعاً مستحق نہ ہوں گے۔ جب کسی سے حددرجہ نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے تو آخری کلام یہی ہوتا ہے کہ آئندہ مجھ سے بات نہ کی جائے۔ اس انداز سخن سے ہمدردیوں کے تمام پہلو یکسر مفقود ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد پھر کسی رحمت کی امید رکھنا متوقع نہیں۔ صاحب مراسلہ نے اپنے مراسلہ کو ختم کرتے ہوئے ناصحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’یہ خالص علمی مسئلہ ہے اور قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے متفقہ تفکر کا راستہ بند نہیں کیا ہے۔ بلکہ اسے پسند فرمایا ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا آپ آزادانہ طور پر غور کریں۔ یقینا آپ ہماری ہمنوائی کو پسند کریں گے۔ کیونکہ یہی امر روح قرآن اور ہمارے پیارے آقاﷺ کے ارشاد کے مطابق ہے کہ جہنم دائمی نہیں ہے۔‘‘
اس انداز تحریف سے معلوم ہورہا ہے کہ اصل مقصد مسئلہ کی افہام وتفہیم نہیں ہے۔ بلکہ اس ناصحانہ انداز سے یہ صاحب اپنے دین مرزائیت کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انداز ہمیشہ اقلیتی فرقوں کارہا ہے۔ اس طرح یہ بھی عام سیدھے سادھے مسلمان لوگوں کو دین مرزائیت کے دام فریب پھنسالیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ یہ انداز اخلاقی اقدار کے منافی ہے کہ کسی مسئلہ کا سہارا لے کر عام ناواقف لوگوں کو اپنے دین مرزائیت کے دجل وفریب میں پھنسائیں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لئے کہ ختم نبوت کو پاکستان میں دستوری تحفظ حاصل ہوچکا ہے اور تمام دنیا میںمرزاغلام احمد قادیانی کے جھوٹ کی قطعی کھل چکی ہے۔ اب یہ بھی ممکن نہیں رہا کہ اس انداز سے دین مرزائیت کی تبلیغ کی جاسکے۔
ایں خیال است ومحال است وجنون