رسول کافۃ للناس ہے جو قیامت تک کے لوگوں کے لئے ہدایت ورہنمائی کا کامل نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اگر ہدایت کے آفتاب ومہتاب تکمیل انسانیت اور فلاح آدم کے لئے ناکافی ہوتے تو دنیا میں کسی نئی کتاب، نئی شریعت اور نئے رسول کا ظہور بھی ضرور ہوتا اور ان پر ایمان لانے کا حکم بھی واضح طور پر دیا جاتا۔ بصورت دوم، اﷲتعالیٰ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نئے آنے والے نبیوں کی اطلاع تو انسانوں کو نہ پہنچائے۔ لیکن ان پر ایمان نہ لانے والوں کو سزا کا مستحق قرار دے دے۔ یہ بات اس کے آئین عدل ورحمت کے خلاف ہے۔ ذیل میں صرف چند ایک آیات درج کی جاتی ہیں۔ جن میں آئندہ کسی آنے والے نبی کی کوئی بشارت نہیں اور نہ ہی ان پر ایمان لانے کا کوئی حکم ملتا ہے۔ تاکہ اس کے بعد تمام انسان اسی کتاب اور اسی رسول کو مرکز ہدایت کی حیثیت سے اپنی پوری زندگی میں یکسوئی کے ساتھ تسلیم کر لیں اور آئندہ کسی نئے نبی اور نئی شریعت کے مطابق زندگی کے رنگ بدلنے کا کھٹکا باقی نہ رہے۔
کتنا بڑا انعام اور احسان ہے اس رحمۃ للعالمین کا جس نے نسل انسانیت کو ہر روز ایمان بدلنے کے تکلف سے ہمیشہ کے لئے نجات دلادی۔
۱… ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاٰخرۃ ہم یؤقنون (بقرہ:۱)‘‘ {اور جو کتاب تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے پیغمبروں پر نازل ہوئیں۔ سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔}
اس آیت میں قرآن پر اور اس سے پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے والوں کو مؤمن کہاگیا ہے۔ اگر اس کتاب کے بعد کسی کتاب کا نزول یقینی ہوتا تو پھر مؤمن کامل کی تعریف یوں ہوتی۔ ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وما ینزل من بعدک‘‘ جو کتاب تم پر نازل ہوئی اور تم سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں اور جو کتاب تمہارے بعد نازل ہوگی۔ سب پر ایمان لاتے ہیں۔ آئندہ وحی کا سلسلہ بند ہورہا تھا۔ اس لئے ایمان لانے کے مطالبہ میں اس کتاب کے بعد مزید کسی کتاب پر ایمان لانا شامل نہیں کیاگیا۔
لیکن جس نبوت کی بنیاد جھوٹ، فریب، دھوکہ اور مغالطہ پر رکھی گئی ہو وہ ہر ممکن طریق سے اپنے فن کی مہارت ضرور دکھاتی ہے۔ چنانچہ اس آیت سے بھی جھوٹی نبوت کشید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’ما انزل الیک‘‘ سے قرآن کی وحی ’’ما انزل من قبلک‘‘ سے انبیاء سابقین کی وحی اور آخرت سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے۔ آخرت کے معنی