ایسے نبی کا دوبارہ آنا جو امتی نہیں ہے ختم نبوت کے منافی ہے۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۶۸،۶۹، خزائن ج۲۰ ص۳۸۳ حاشیہ)
یہ دونوں دعوے جو اپنے اندر صریح تضاد اور جھوٹ کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ قادیانی نبوت کے تحرف ودجل اور اس کے کذب وفریب کی بدترین مثالیں ہیں۔ اس سے قیاس کر لیجئے کہ آج قادیانی امت بھی بظاہر خاتم النبیین اور ختم نبوت پر یقین رکھنے کا اعلان واقرار کرتی ہے۔ لیکن یہ محض عوام کو دھوکہ دینے کے لئے ہے۔ اصل میں ان کے ہاں ختم نبوت کا وہی مفہوم ہے جو مرزاقادیانی نے بیان کیا ہے۔ مغالطہ آمیز اقرار سے عوام کے غیظ وغضب سے بھی بچنا چاہتے ہیں اور اپنے عقیدہ پر بھی قائم رہتے ہیں۔
دعویٰ نمبر۱، سے ثابت ہوا کہ حضور کی پیروی سے خود بخود کمالات نبوت پیدا ہوتے ہیں اور آپ کی روحانی توجہ نئے نئے نبی تراشتی ہے۔
دعویٰ نمبر۲، آنحضرت کی پیروی سے وحی والہام اور نبوت کا حصول ہوتا ہے؟
مرزاقادیانی کے دعوے کے مطابق اگر ہر ایک پیروکار کمالات نبوت سے مستفید ہو کر نبی بن سکتا ہے تو پھر مرزاقادیانی کے لئے کوئی تخصیص نہیں رہتی۔ جس کے جی میں آئے اور جب چاہے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کر کے کاروبار چلا سکتا ہے اور دنیا میں تو خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی کچھ نہ کچھ ماننے والے مل ہی جاتے ہیں۔ جب کہ آج کل نبوت کے لئے کسی سیرت کی شہادت، وحی اور معجزات کا ثبوت مہیا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا نئے نبی کا مسئلہ منوانے کے لئے جھوٹ بولنے اور عوام کو لفظی اور معنوی فریب دینے کی اچھی خاصی مہارت مطلوب ہے اور وہ مرزاقادیانی کو بخوبی میسر ہے۔ اگر آنحضورﷺ کی مہر نبوت لگنے سے انبیاء کی فوج آئندہ آتی رہے گی تو پھر اﷲتعالیٰ کے اعلان کا جو مفہوم آنحضورﷺ نے سمجھا، صحابہ کرامؓ نے اس پر جو عقیدہ جمایا۔ ملت اسلامیہ کا اس پر اجماع ہوا اور آج تک اس میں کوئی گنجائش نہ نکل سکی تو پھر ان صداقتوں کی روشنی میں مرزاقادیانی کذب وارتداد کی رسوائی سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟ نیز مرزاقادیانی نے اپنے دور کے دوسرے مدعیان نبوت کو سور، بدطینت اور جھوٹا کیوں قرار دیا اور ان کے لئے قلمی غلاظت فضا میں کیوں بکھیری؟
نبی بنتا نہیں بلکہ اسے اﷲتعالیٰ منتخب کرتا ہے
نبی کا کام لوگوں کو خدائی پیغام پہنچانا ہوتا ہے اور اس کام کے لئے موزوں افراد کا